دیوبند کی ادبی حیثیت کیوں کم ہوتی جا رہی ہے؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 08-08-2021
دیوبند کی ادبی حیثیت کیوں کم ہوتی جا رہی ہے؟
دیوبند کی ادبی حیثیت کیوں کم ہوتی جا رہی ہے؟

 

 

فیروز خان، دیوبند، سہارن پور

گزشتہ ڈیڑھ صدی سے دارالعلوم دیوبند کی نسبت سے دیوبند کوہمیشہ سے ادبی میدان میں نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے فارغین کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں نے بھی ادب و شاعری کے میدان میں اس ادبی بستی کا نام روشن کیا جس کی ایک طویل فہرست ہے۔

یہاں پرنہ صرف مقامی بلکہ قومی سطح کے شعرا ء و ادیب پیدا ہوئے بلکہ اردو کے ساتھ ساتھ عربی،انگریزی،فارسی اور ہندی میں لکھنے پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد یہاں موجود ہے،دارالعلوم دیوبند کے فضلاء نے ملک کے مختلف اخبار و رسائل کے ساتھ ساتھ دینی و عصری اداروں میں اپنی نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔

یہاں سے گزشتہ صدی کے اندر تقریبا پچاس اردو اخبارات و رسائل کی اشاعت ہوتی رہی ہے اس میں اب کمی واقع ہوئی ہے لیکن ابھی بھی یہ اشاعت مختلف تعلیمی اداروں کے ذریعہ جاری و ساری ہے،لیکن موجودہ صورتحال میں لکھنے پڑھنے والا ایک بڑا طبقہ اس بات کو شدت سے محسوس کر رہا ہے کہ دیوبند میں اب اس انداز میں نسل نو کی نشو نمائی نہیں ہو رہی ہے جس انداز میں علامہ انور صابری،مولانا سید اظہر شاہ قیصر،مولانا اعجاز احمد قاسمی،عمر دراز خان عمر اور عامر عثمانی کے زمانے میں ہوا کرتی تھی۔

رسالہ دارالعلوم،دیوبند ٹائمس جیسے اخبارات و رسائل کے ذریعہ نئے لکھنے پڑھنے والے شعراء اور ادیبوں کو موقعے فراہم کرائے جاتے تھے اور ان کی اصلاح کی جاتی تھی اور علامہ انور صابری کے ذریعہ شعر و ادب کے میدان میں دیوبند کی بھرپور نمائندگی مقامی شعرا کو حاصل تھی اور ان کے زیر سایہ ایک بڑا طبقہ ادبی خدمات انجام دیا کرتا تھا۔

گزشتہ پندرہ،بیس سالوں سے ڈاکٹر نواز دیوبندی کے بعد کوئی ایسی بڑی ادبی شحضیت منظر عام پر نہیں آئی جس نے قومی یا بین الاقوامی طور پر دیوبندکی نمائندگی کی ہو،آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ دیوبند کی نمائندگی قومی اسٹیج سے کم ہوتی جا رہی ہے۔

اس سلسلے میں اتر پردیش اردو اکیڈمی کے سابق چیئر مین و عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹر نواز دیوبندی کا کہنا ہے کہ یہ بات تو سچ ہے کہ موجودہ صورتحال میں ہمارے ادبی سیناریوں میں نئی نسل کی نمائندگی بہت کم ہے با وجود اس کے نئی نسل کے شاعر بہت اچھی شاعری کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر نواز دیوبندی کا کہنا ہے کہ جو بچے آج اچھے شعر کہ رہے ہیں یقینا وہ ہی کل بڑے بن جائیں گے۔یہ ضروری نہیں ہے کہ آج کوئی بڑا ہو، شاعری کے مستقبل سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ مایوس نہیں ہیں، لوگ سننا اور پڑھنا چاہتے ہیں ڈاکٹر نواز دیوبندی نے کہا کہ بدلتے وقت کے ساتھ مشاعرے بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ اچھے اور نئے نوجوان آ رہے ہیں اور اچھی شاعری کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجاز لکھنوی،جگر مرادآبادی،جوش ملیح آبادی،میر انیس اورسیماب اکبر آبادی کے دور میں بھی یہ کہا جاتا تھا کہ غالب اور میر جیسے شاعر نہیں ہیں۔ آج یہ کہا جاتا ہے کہ کنور مہیندر سنگھ بیدی اور کیفی اعظمی جیسے شاعروں کی کمی ہے۔ یہ شکوہ یونہی ہوتا رہے گا۔ لیکن اردو آگے بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر شاعری معیاری ہو تو شاعری کا مستقبل تاب ناک ہے۔مشاعروں اور اردو ادبی خدمات کے ذریعہ عالمی سطح پر اپنی ایک خاص پہچان قائم کر چکے معروف اردو شاعر افضل منگلوری کے مطابق آج کے دور میں مشاعروں کے انعقاد کا سلسلہ ادبی شعری نشستوں کے دائرے سے نکل کر سیاسی مشاعروں کے انعقاد تک جا پہنچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے گھروں سے اردو کو بہت حد تک ختم کر دیا ہے۔

افضل منگلوری کے مطابق روڑکی اور اس کے اطراف میں جہاں تین ہزار سے زائد مساجد و مدارس ہیں وہاں چالیس سے بھی کم اردو اخبارات آتے ہیں،افضل منگلوری نے کہا کہ اب جدید دور ہے، نئی تہذیب ہے اور نئی تہذیب کے انداز بھی نئے ہیں۔ زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اچھے ماہرین پیداکرنے میں ہماری ناکامی کی وجہ بھی نئی نسل کی قائدانہ صلاحیتوں کی شناخت،اعتراف و فروغ میں ہمارا معاندانہ رویہ ہے۔آج قیادت کا بحران صرف سیاسی میدان تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیتاہے۔

جماعت صوفیائے ہند کے سکر یٹری پروفیسر تنویر چشتی کا کہنا ہے کہ نئی نسل کی سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ وہ اردوسے دور ہے اورنئی نسل کے شاعر شاعری تو اردو میں کرتے ہیں مگر لکھ کر ہندی میں لاتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہم پچھڑتے جا رہے ہیں نا اچھا غزل گو پیدا ہو رہا ہے اور نہ اچھا ادیب سامنے آ رہا ہے او رنہ اچھا مرثیہ خواں اور مقرردور دور تک دکھائی دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادیبوں اور شاعروں کو ایسا ادب اور ایسی شاعری تخلیق کرنی چاہیے جس سے موجودہ نسل فیض حاصل کر سکے۔ اس طرح سے ادب سے اقدار کی پاسداری کا بہترین کام لیا جا سکتا ہے۔معروف ادیب و قلم کار سید وجاہت شاہ نے کہا کہ گزشتہ دس بارہ سالوں سے دیوبند کی سرزمین سے کوئی ایسا شعر بھی سامنے نہیں آیا ہے جو ادبی محفلو ں،مجلسوں اور مشاعروں کی رونق بنا ہو،اس سلسلے کا آخری شعر دانش عامری کا تھا :

وہ اردو کا مسافر ہے یہی پہچان ہے اس کی

جہاں سے بھی گزرتا ہے سلیقہ چھوڑ جاتا ہے

سید وجاہت شاہ نے کہا کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ جب علامہ انور صابری نو عمر کے شاعروں و ادیبوں کو لیکر عظمت علی شاہ درگاہ میں بیٹھا کرتے تھے اور ایک ہی وقت میں وہ پانچ،چھ شعرا ء کا کلام سنتے بھی تھے اور ان کی اصلاح بھی کیا کرتے تھے،مگر ان کی وفات کے بعد دیوبند یہ سلسلہ بند ہو گیا،سید وجاہت شاہ نے کہا کہ جب تک ادبی مجلسیں اس غرض سے منعقد نہیں ہونگی کہ نئی نسل کی اصلاح کرنی ہے،سننے کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کرنی ہے تب تک اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہر شاعر اپنے آپ کو استاد شاعر کر رہا ہے،وہ نہ تو کسی کو اپنا کلام سنانا پسند کرتا ہے اور نہ اسکی خواہش اصلاح لینے کی ہے،اس وجہ سے بھی نئے شعراء کے کلام میں پختگی اور جدت نہیں آپا رہی ہے۔سید وجاہت شاہ نے کہا کہ موجودہ لکھنے پڑھنے والے مدارس سے وابستہ لوگ جب تاریخ دیوبند کا ذکر کرتے ہیں تو اس میں نسل نو کا نام بالکل نہیں لیتے اور تاریخ دیوبند کو دارالعلوم سے شروع کر کے دارالعلوم پر ہی ختم کر دیتے ہیں،اس وجہ سے بھی لکھنے پڑھنے والوں میں ایک بڑی مایوسی ہے،انہوں نے کہا کہ ہمیں آنے والی نسلوں کو روشن مستقبل دینے کے لئے واپس پلٹنا ہوگا۔

الحیاء پبلکیشنز کے ڈائرکٹر و اردو ٹیچر عبداللہ عثمانی کے مطابق تکبندی کی شاعری مشاعروں کے تقدس کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ غیر ظاہری طور پر سہی لیکن مشاعرے اردو زبان اور شاعری کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اورمشاعروں،شعری نشستوں اور ادبی محفلوں کے وقار اور تہذیب کو قائم رکھنے کے لئے معیاری نشستوں کے انعقاد کو فروغ دینے کی ضرورت ہے،تبھی اچھے شاعر اور اچھے ادیب سامنے آئیں گے۔