'افغان خواتین کےحقوق اورآزادی کے لیے گونج اٹھی' آواز

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 30-10-2021
افغان خواتین کا حقوق اور آزادی کے لیے دھرنا اور مظاہرہ
افغان خواتین کا حقوق اور آزادی کے لیے دھرنا اور مظاہرہ

 

 

آواز دی وائس : امیت دیوان

آج راجدھانی کے جنتر منتر پر افغانستان میں خواتین پرمظالم اور ان کے حقوق کی پامالی کے خلاف ایک بڑا دھرنا اور مظاہرہ کیا گیا۔جس میں بڑی تعداد میں افغانستان کی رفیوجی خواتین نے حصہ لیا،ہر کیس کی ایک درد بھری کہانی تھی،ایک المیہ تھا،ہرکسی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ہر ایک کی کہانی تڑپانے والی تھی۔ ان سب خواتین کی بے وطنی کے پیچھے صرف ایک طاقت کا ہاتھ تھا،وہ طالبان ہے۔۔ کسی نے اپنے باپ کو گنوا دیا،کسی نے اپنے بھائی کو۔سب کو افغانستان میں پھنسی خواتین کی فکر ہے ،ان کی زندگی کے تعلق سے تشویش ہے۔جو چاہتی ہیں کہ عالمی برادری افغان خواتین کے بنیادی حقوق کی پامالی کو روکے۔

اس مظاہرے میں سینکڑوں افغان خواتین نے حصہ لیا جو راجدھانی کے مختلف حصوں سے آئی تھیں۔جن میں بچے بھی تھے اور بزرگ بھی شامل تھے۔جنہوں نے مطالبہ کیا کہ افغان خواتین کے بنیادی حقوق کو پامال ہونے سے بچایا جائے۔ ان کی آزادی اور ترقی کے لیے عالمی برادری حرکت میں آئے۔اس دھرنے اور مظاہرے کا مقصد عالمی برادری کی توجہ افغان خواتین کی حالت پر مبذول کرانا تھا۔

مظاہرین نے کیا کہا

مظاہرین نے افغان خواتین کے حق میں نعرے بلند کئے اور طالبان کے حلاف نعرے لگائے۔ اس بات پر زور دیا کہ افغانستان میں خواتین پر مظالم کو روکا جائے ۔

احتجاج میں شامل ایک خاتون نے کہا کہ ہم یہاں افغانستان میں رہنے والی خواتین کی جانب سے بات کرنے کے لیے آئے ہیں، کیوں کہ طالبان حکومت خواتین میڈیا سے بات نہیں کرسکتیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم ان خواتین کی مدد کرنا چاہتے ہیں، طالبان نے ان سے بہت سے حقوق چھین لیے ہیں، خواتین سے آزادی کا حق چھین لیا گیا ہے۔

مظاہرین میں شامل ایک خاتون نے طالبان کے قبضے پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کی خواتین طالبان سے خوفزدہ ہیں، کیوں کہ طالبان چاہتے ہیں کہ ہم صرف بچے پیدا کریں۔

احتجاج میں شامل خواتین کا مشترکہ کہنا تھا کہ دنیا طالبان کو تسلیم نہ کرے اور طالبان رہنماؤں کو 'بلیک لسٹ' کرے۔ ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن(Asia-Pacific Foundation) کے افغانستان میں خواتین کی زندگیاں 1996 سے 2001 تک بہت زیادہ خراب تھیں، اور وہ طالبان کے شدید دباؤ کا شکار تھیں۔

طالبان نے مخلوط تعلیم پر پابندی عاید کر دی ہے۔ وہاں کے خامہ پریس نے رپورٹ کیا کہ صوبہ ہرات میں دہشت گرد گروہ کے حکام نے گزشتہ ہفتے حکم دیا تھا کہ لڑکیوں کو اب یونیورسٹیوں میں لڑکوں کی طرح کلاسوں میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

جنتر منتر پر اس مظاہرے کا اہتمام ’آوازخواتین‘ نامی این جی اورافغان پناہ گزین خواتین کی ایسوسی ایشن(Afghan Refugee Women's Association) نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ ’آواز خواتین‘ایک ایسی این جی او ہے جو  خواتین کے خلاف عدم مساوات، امتیازی سلوک اور جبر سے پاک معاشرے کی تعمیر کے لیے کام کر رہی ہے۔جس کا مقصد خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے اجتماعی اور پائیدار کوشش کرنا ہے۔ 

awazurdu

جنتر منتر پر مظاہرین کی نعرے بازی 

راجدھانی کے جنتر منتر پر ہفتہ کی سہ پہر کو اس مظاہرے اور احتجاج میں افغان خواتین اس اپنی اپنی زندگی کی ان مشکلات پر روشنی ڈالی جن کے سبب وہ اب نہ صرف بے وطن ہیں بلکہ اپنے قریبی رشتہ داروں سے جدا ہوگئی ہیں۔ جبکہ یہ حالات افغانستان میں طالبان کی دین ہیں ۔خواتین نے نم آنکھوں سے اپنوں سے بچھڑنے اور دور ہونے کا درد بیان کیا ،ساتھ ہی بتایا کہ کس طرح جنگجوئیت اور تشدد نے ان کی زندگی کو جہنم بنایا ۔

’آوازخواتین ‘کے مطابق ان کی استحصال اور جد وجہد کی کہانیوں نے چونکا دیا۔ ان میں ہر ایک کی اپنی کہانی تھی۔ راجدھانی میں 'لاجپت نگر' میں واقع ایک 'افغان کالونی' کی خاطرہ ہاشمی نے وسط افغانستان کے شہر غزنی میں بطور پولیس افسر خدمات انجام دی تھیں۔

ان پر7جون2020 کومبینہ طور پرطالبان نے حملہ کیا تھا۔ ان پر8 مرتبہ وار کیا گیا اور اس کے سر پر چوٹ آئی جس سے وہ 4 دنوں تک بے ہوش رہیں۔ حملہ آوروں نے ان کی آنکھوں میں چاقو سے وار کیا تھا۔اس حملے کے دوران ان کی دونوں آنکھوں کو شدید نقصان پہنچا تھا، جس کی وجہ سے وہ بینائی سے محروم رہیں۔

ایک خاتون زرغونہ افغانستان میں جج تھیں۔ زرغونہ کو ظلم و ستم سے بچنے کے لیے اپنے ملک سے ہجرت کرنی پڑی۔انہوں نے اپنی تمام کامیابی اور حیثیت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔وہ اب روزی روٹی کمانے کے لیے ہندوستان میں ماسک کی سلائی کا کام کرتی ہیں، جس سے ان کی روز مرہ کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔

تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے واقف ہونا جس کا افغان پناہ گزین برادری کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہمیں صرف ان کی آواز کو عام لوگوں تک پہنچانے پر مجبور کیا ہے۔