اردوزندہ ہے،زندہ رہے گی:جشن اردوصحافت میں اہل اردوکا اجتماع

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 27-03-2022
اردوزندہ زبان ہے،زندہ رہے گی:جشن اردوصحافت میں اہل اردوکا اجتماع
اردوزندہ زبان ہے،زندہ رہے گی:جشن اردوصحافت میں اہل اردوکا اجتماع

 

 

حیدرآباد۔ مسلمانوں کی پسماندگی کی وجہ تعلیم سے دوری اور اردو کے تحفظ و بقا کی وکالت کرتے ہوئے وزیرداخلہ تلنگانہ محمد محمود علی نے کہا کہ اردو مرنے والی زبان نہیں ہے بلکہ ہمیشہ زندہ رہے گی۔انہوں نے یہ بات بزم صدف انٹرنیشنل کی جانب سے ایوارڈ برائے 2019-20-21اور جشن اردوصحافت دو صدی تقاریب کے پہلے دن منعقدہ تقریب سے بہ حیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہاکہ مسلمانوں کے لئے تعلیم ضروری ہے،کیونکہ علم سے پسماندگی دور ہوتی ہے۔ اگرچہ کہ ہم کو تمام زبانیں سیکھنی چاہئے لیکن اردو کو نہیں بھولنا چاہئے کیونکہ یہ ایک شیریں زبان ہے۔انہوں نے کہاکہ چونکہ حیدرآباد اردو کا گہوارہ ہے اسی لئے اس شہر میں عنقریب عالمی اردو کانفرنس منعقد کی جائے گی۔

انہوں نے اردو زبان کو بچاناوقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اردو کے روزگار سے مربوط نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگ اردو کو چھوڑ دیتے ہیں جو مناسب بات نہیں ہے۔

محمد محمود علی نے کہا کہ اردو کی پہلی یونیورسٹی عثمانیہ یونیورسٹی رہی جہاں پر اردو میں سب سے زیادہ ریسرچ کا کام ہوا۔قطب شاہی دور میں حیدرآباد دکن میں فارسی اور اس کے بعد پھر آصف جاہی دور میں اردو کو کافی ترقی ملی۔

انہوں نے کہاکہ تلنگانہ کو ریاست کا درجہ ملنے کے بعد اردو کو یہاں کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیاگیا اور حال ہی میں وزیراعلی کے چندرشیکھرراو نے سرکاری ملازمتوں پر تقرری کے لئے ہونے والے امتحانات کو بھی اردو میں منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے جو اردووالوں کیلئے ایک تحفہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں کسی رکن کی جانب سے سوال کیاجاتا ہے تو وزیراعلی خود اس کاجواب اردو میں دیتے ہیں۔اسمبلی کے تمام 119ارکان اردو جانتے ہیں۔

انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ تلنگانہ میں قائم اقلیتی اقامتی اسکولس میں بچوں کو اردو کے ساتھ ساتھ دینیات کی بھی تعلیم دی جاتی ہے اور ان اسکولس میں زیرتعلیم بچوں کے تمام اخراجات حکومت برداشت کرتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ اعلی تعلیم کی فراہمی کیلئے اقلیتی نوجوانوں کو حکومت اپنے خرچ پر بیرونی ممالک بھیج رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ ویمنس کالج کوٹھی جہاں پر یہ پروگرام منعقد کیاجارہا ہے کو جلد ہی حکومت کی جانب سے یونیورسٹی کا درجہ دیاجائے گا۔

انہوں نے دعوی کیا کہ تلنگانہ کے تمام ریلوے اسٹیشنس اور دفاتر میں اردو کا استعمال کیاجاتا ہے۔ اس موقع پر وزیرداخلہ کے ہاتھوں ایوارڈزکی پیشکشی عمل میں آئی۔

بزمِ صدف انٹر نیشنل ایوارڈ 2019پروفیسر مظفرحنفی کو دیا گیا (جو ان کے بیٹے انجینئرفیروز مظفر کو پیش کیا گیا)2020 کے لیے معروف ناول نگار پروفیسر غضنفر کو بین الاقوامی ایوارڈ پیش کیا گیا۔بزمِ صدف نئی نسل ایوارڈ 2020 کے لیے پروفیسر ابو بکر عباد کو پیش کیا گیا۔

اردو زبان کی عمومی خدمات کے لیے محمد صبیح بخاری ایوارڈ برائے(2019) پروفیسر محمد محمود الاسلام(بنگلہ دیش) کو دیاگیا۔ مشہور ناقد اور صاحب طرز ادیب حقانی القاسمی کو ضیاء الدین احمد شاہد جمال برائے ادبی صحافت 2021 دیا گیا۔ڈاکٹر راہی فدائی (بنگلور) کو پروفیسر ناز قادری ایوارڈ برائے نعت گوئی، سہیل انجم(دہلی) کو اشرف قادری ایوارڈ بھی پیش کیاگیا۔

وزیرداخلہ نے کتابوں کی رسم اجرا بھی انجام دی۔ شہاب الدین احمدچیرمین بزمِ صدف انٹرنیشنل نے بزم کے مشن اور اس کے سفر کی تفصیلات سے واقف کروایا۔انہوں نے کہا کہ بزم کی سرگرمیاں 12ممالک میں جاری ہیں۔ساتھ ہی ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں اس کی مختلف کمیٹیاں کام کررہی ہیں جو اردواور مادری زبان سے محبت کرنے والوں کی کامیابی ہے۔

انہوں نے کہاکہ بزم نے اردو ادب کے لئے حقیقی طورپر کام کرنے والوں کی نشاندہی کا کام بھی کیاگیاہے۔بزم سال بھر مشن کی طرز پر کام کرتی ہے، اس کے ہر رکن کا اس مشن میں برابری کا حصہ ہوتا ہے۔انہوں نے کہاکہ جس کو ماں سے محبت ہوگی اس کو اردو سے یقینا محبت ہوگی اور اس بزم کا مشن بڑھتا ہی رہے گا۔

ڈائرکٹر بزمِ صدف انٹرنیشنل پروفیسر صفدر امام قادری نے بزم کا تعارف اور ایوارڈس کی تفصیلات سے واقف کرواتے ہوئے کہا کہ بزم کو یہ اعزازحاصل ہے کہ اس کی یہ تقریب اردو کے پہلے شہر حیدرآباد میں منعقد کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بزم کے ایوارڈس کی تقریب سال 2016سے شروع ہوئی۔ پروفیسر غضنفرعلی نے کہا کہ اس تنظیم کی جانب سے ایسی شخصیات کاایوارڈ کیلئے انتخاب کیاجاتا ہے جو و واقعی انعام کے اہل ہیں۔انہوں نے کہا کہ صدف انٹر نیشنل کے دیے گئے کسی بھی انعام پر ابھی تک کوئی حرف نہیں آسکا۔

تنظیم صدف کا ہر ایک موتی بے داغ رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس ایوارڈ تقریب کے لئے شہرِ صدف کا انتخاب کیا گیا جو ساری دنیا میں گہوارہ گوہر کی حیثیت رکھتا ہے۔پروفیسر ابوبکر عباد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بزم میں شامل افراد کا اردو سے پیشہ وارانہ تعلق نہیں ہے کیونکہ اس میں شامل کوئی سائنسداں ہے، کوئی ڈاکٹر ہے تو کوئی تاجرہے لیکن تمام کامشترکہ جنون اردو ہے۔یہ جنون اس بات کا ہے کہ کس طرح گھر گھر تک اردو پہنچے،کیسے دلوں میں جوش بھرا جائے۔

پروفیسر محمود الاسلام پروفیسر ڈھاکہ یونیورسٹی نے کہا کہ اردو کے پہلے گھر حیدرآباد سے اردو پڑھنے، پڑھانے اور تحقیق کا جذبہ ملا۔انہوں نے اردو کے اپنے سفر کی تفصیلات سے واقف کروایا۔انہوں نے اس تقریب کے اس شہر میں انعقاد پر مبارکباد پیش کی اور انہیں انعام دیئے جانے پر شکریہ ادا کیا۔

مسعود حساس(کویت) نے کہا کہ ہموار راستوں پر چلنا تو سب کو آتا ہے لیکن خاردار پگڈنڈیوں پر چل کر منزل پرپہنچنے کا کام بزم صدف نے کیا ہے جو بہترین کام ہے۔اردو اکیڈیمی آندھراپردیش کے سابق صدرنشین ڈاکٹرسید محمد نعمان نے کہاکہ اردو کے مشن کو مٹانے کی سازش کی جارہی ہے لیکن اردو ادب مٹنے والا نہیں ہے۔ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے دوراندیشی کے ساتھ ایک دوسرے سے ربط ضبط قائم کرتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

روزنامہ تاثیر کے چیف ایڈیٹرمحمد گوہر نے کہاکہ اردو کو گھرگھر پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے جو قابل ستائش قدم ہے۔دنیا میں جتنی زبانیں بولی جاتی ہیں، ان میں اردو بھی شمار ہوتی ہے۔جناب عظیم عباس نے کہاکہ حیدرآباد شہر سے اردو مشاعرے، سمینار کبھی جدانہیں ہوسکتے۔

اردو کے حوالے سے کوششوں میں قطر کو ایک مضبوط مرکز بنایاگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی غیر مسلم اصحاب بھی اردو کے سفر سے جڑے ہیں جو ایک اچھی بات ہے۔قطر میں گنگاجمنی تہذیب کا ماحول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔انہوں نے دعوی کیا کہ اردو قطر میں محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

ڈاکٹر ندیم ظفر گیلانی نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو والوں کی ہمت افزائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس سلسلہ میں بزم کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔انہوں نے بیرونی ممالک میں اردو کو فارین لینگویج کے طورپر پڑھانے کی وکالت کی۔

انہوں نے کہا کہ بزم کی جانب سے آن لائن اردوکلاسز کا کامیاب تجربہ کیاگیا اور دیگر ممالک میں بھی اردو تناور درخت کی شکل اختیارکررہی ہے۔

انہوں نے اردو میں بچوں کی دلچسپی کو برقراررکھنے کیلئے تصاویر کے ساتھ کہانیوں کی کتابوں کی سفارش کی۔انہوں نے کہاکہ اردو کو ہمیں بچانا ہے تو اردو پڑھانے کی ضرورت ہے۔حقانی القاسمی، سہیل انجم، راہی فدائی نے بھی خطاب کیا۔ محترمہ رفعت جہاں نے شکریہ ادا کیا۔