اقوام متحدہ: ہندو، بودھ اور سکھ فوبیا کو بھی تسلیم کیا جائے ۔ تریمورتی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 22-01-2022
اقوام متحدہ: ہندو، بودھ اور سکھ فوبیا کو بھی تسلیم کیا جائے ۔ تریمورتی
اقوام متحدہ: ہندو، بودھ اور سکھ فوبیا کو بھی تسلیم کیا جائے ۔ تریمورتی

 

 

آٓواز دی وائس : عالمی برادری کو ابراہیمی مذاہب کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے ساتھ روا رکھی جانے والی منافرت کو بھی تسلیم کرنا چاہیے۔ دیگرمذاہب کو بھی منافرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، لہذا دیگر مذاہب کے ساتھ روا رکھی جانے والی منافرت بالخصوص ہندو، بودھ اور سکھ فوبیا کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے۔

اقوام متحدہ میں ہندوستان کے سفیر ٹی ایس تریمورتی نے نئی دہلی میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بعض مذہبی فوبیا کو اجاگر کرنا حالیہ برسوں میں ایک اہم رجحان بن گیا ہے۔۔ انہوں نے کہاکہ’’اقوام متحدہ نے حالیہ برسوں میں اسلاموفوبیا، مسیحی فوبیا اور سامیت دشمنی کے رویوں کے حوالے سے خاصا کام کیا ہے، یہ تینوں ابراہیمی مذاہب ہیں۔ ان کا ذکر انسداد دہشت گردی کے حوالے سے عالمی لائحہ عمل میں بھی موجود ہے لیکن دنیا کے دیگر بڑے مذاہب کے خلاف بھی نئے فوبیا، منافرت یا تعصب بڑھ رہا ہے اور دنیا کو انہیں بھی پوری طرح تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔"

ہندوستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سال 2022 کے لیے انسداد دہشت گردی کمیٹی (سی ٹی سی) کا چیئرمین ہے۔ تریمورتی نے تاہم واضح کیا کہ وہ یہ بات سی ٹی سی کے چیئرمین کے طور پر نہیں بلکہ اقوام متحدہ میں ہندوستان کے سفیر کے طور پر کہہ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھاکہ’’ہندو مخالف، بودھ مخالف اور سکھ مخالف رویوں کی عصری شکلوں کا ظہورانتہائی سنگین تشویش کا باعث ہے اور اس پر اقوام متحدہ اور اس کے تمام اراکین کو نہ صرف توجہ دینی چاہیے بلکہ اس خطرے کا ازالہ کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اسی صورت میں ہم مذہبی فوبیا جیسے موضوعات پر بحث و مباحثہ میں بہتر توازن پیدا کر سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ میں تریمورتی نے تاہم ہندو، بودھ اور سکھ فوبیا کی کوئی مثال نہیں دی۔ تریمورتی نے کہا کہ ہندوتوا تنظیموں کی مبینہ دھمکیوں کو میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ’’گمراہ کن اور غلط ‘‘ ہے۔

تریمورتی کا کہنا تھاکہ’’یہ بات سمجھنا اہم ہے کہ جمہوریتوں میں دایاں بازو اور بایاں بازو سیاسی اکائی کا حصہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ الیکشن کے ذریعہ اکثریتی عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آتے ہیں۔ اور جمہوریت اپنے وسیع معنوں میں مختلف آئیڈیالوجی اور نظریات کا وسیع مجموعہ ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ قومی یا علاقائی بیانیے کو عالمی بیانیے کا حصہ بننے نہیں دینا چاہیے۔ اور ’’پرتشدد قوم پرستی‘‘ اور’’دائیں بازو کی انتہاپسندی‘‘ جیسی اصلاحات سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کوغیرموثر کر سکتے ہیں۔