خاتون خواجہ سرا نے کھولا ریستوراں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 12-08-2021
خاتون خواجہ سرا نے کھولا ریستوراں
خاتون خواجہ سرا نے کھولا ریستوراں

 

 

آواز دی وائس، نئی دہلی

یہ ایک حقیقت ہے کہ خواجہ سرا(Transgender)بھی ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں، تاہم معاشرہ انہیں کبھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا ہے۔

خواجہ سرا عام طور پر ہمیں تالی بجانے والے بھکاری کی شکل میں نظر آتے ہیں، چند پیسے سڑکوں پر مانگ کراپنی روزہ مرہ کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔

خواجہ سرا کو اگرچہ سماج کا سب سے کمترحصہ سمجھا جاتا رہا ہے تاہم اب خواجہ سرا بھی سماج کی آنھکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلے کرنے لیے تیار ہو رہے ہیں۔

اب وہ تجارت میں بھی داخل ہو رہے ہیں اور سیاست میں بھی اپنی شمولیت کا حصہ دکھا رہے ہیں۔ آئیے ایسے ہی ایک خواجہ سرا عروج حسین کی کہانی سناتے ہیں۔

قومی دارالحکومت نئی دہلی سے متصل ریاست اترپردیس کے ضلع گوتم بدھ نگر کے شہرنوئیڈا کی خاتون خواجہ سراعروج حسین ایک ریستوراں شروع کر اپنی روز مرہ کی زندگی گزار رہی ہیں۔

خیال رہے کہ خواجہ سرا عروج حسین کی عمر اس وقت 27 برس ہے، اب وہ اپنی کمیونٹی کے لیے ایک مثال بن گئی ہیں۔ عروج کا کہنا ہے کہ اسے اپنے آپ پر فخر ہے کہ وہ اپنے ریستوران کو خود چلارہی ہے ، سوسائٹی کے بنائے ہوئے دقیانوسی تصورات کو توڑ رہی ہیں۔

وہیں اب عروج اپنے معاشرے کے لوگوں کے لیے ایک مثال بن گئی ہیں۔

عروج ایک ریستوراں کو بطور ٹرانس وومن(Trans woman )چلا رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے معاشرے کی زیادتی سے تنگ اآکر ریستوراں کا کام شروع کیا ہے۔ فی الوقت ان ریستوراں نوئیڈا کے سیکٹر 119 میں ہے۔ ان کے ریستوراں سب کے ساتھ یکساں برتاو کیا جاتا ہے۔

اس کا نام اسٹریٹ ٹیمپٹیشن ( Street Temptations )ہے۔

عروج نے بتایا کہ وہ بھی ایک عام بچے کی طرح پیدا ہوئی تھیں، آہستہ آہستہ اسے احساس ہونے لگا کہ اس کا جسم صرف لڑکوں جیسا ہے، لیکن جذبات لڑکیوں کی طرح ہیں۔

اس کی وجہ سے اسے خاندان اور معاشرے میں بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ عروج نے بتایا کہ اس کا خاندان، دوست سب چاہتے تھے کہ وہ لڑکے کی طرح برتاؤ کرے۔ تاہم مرد والی شبیہ سے ہمیشہ ناخوش رہیں۔

اگرچہ انھوں نے ایسا کرنے کی بہت کوشش کی ، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ 22 سالوں تک ایک لڑکے کی طرح رہیں، کام کی جگہ پر مرد ملازم کے طور پر کام کیا ، لیکن ہمیشہ اسے تنگ کیا جاتا رہا۔

عروج حسین نے اسکول کی تعلیم کے بعد ہوٹل مینجمنٹ کا کورس کیا اور 2013 میں نئی دہلی آگئی۔

یہاں بھی انٹرنشپ کے دوران ان کے ساتھ جسمانی زیادتی کی گئی، انہیں ذہنی اور جسمانی ٹارچرکا سامنا کیا گیا۔

عروج نے بالآخر پریشان ہو کر اپنے آپ کو لوگوں سے دور رکھنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد اس نے ہمت جمع کی اور سوچا کہ اسے کچھ الگ کرنا چاہئے جوسماج اور معاشرے کے لیے ایک مثال بن جائے۔ 

سنہ 2014 میں عروج نے خود کو تبدیل کرنے کے لیے سائیکومیٹرک ٹیسٹ کروانے کے بعد لیزر تھراپی سےعلاج کروایا۔

اس دوران وہ تنہائی محسوس کرتے ہوئے گھر میں بند رہیں۔ ان پر متعدد مرتبہ خودکشی  کے خیالات بھی آئے تھے۔ اب عروج اپنے جسمانی بناوٹ کی وجہ سے خوش ہیں۔

انھوں نے کئی سال کی جدوجہد کے بعد 22 نومبر 2019 میں ریستوراں شروع کیا۔

اس وقت سات افراد کی ایک ٹیم ریستوراں میں کام کرتی ہے، جس میں دو شیف ہیں۔

ذرائع کے مطابق عروج حسین کے ریستوراں کے سارے ملازم خواجہ سرا ہیں۔

عروج ہر شہر میں اپنے ریستوران کے برانچ کھولنے کی خواہش رکھتی ہیں، جسے صرف خواج سرا ہی چلائے۔

اس ضمن میں عروج کہتی ہیں کہ اس کے پیچھے ایک اہم مقصد یہ تھا کہ تمام خواجہ سرا خود سماج کا ایک حصہ سمجھ کر زندگی گزاریں، تاکہ خواجہ سرا کمیونٹی کا کوئی بھی فرد خود کو کمزور نہ سمجھے۔