فراق اردو کی کلاسیکی غزل کا آخری شاعر: پروفیسر عین الحسن

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-12-2021
فراق اردو کی کلاسیکی غزل کا آخری شاعر: پروفیسر عین الحسن
فراق اردو کی کلاسیکی غزل کا آخری شاعر: پروفیسر عین الحسن

 

 

 حیدرآباد:فراق اردو کی کلاسیکی غزل کا آخری شاعر ہے۔ جگر مراد آبادی، یگانہ چنگیزی ، جوش ملیح آبادی جیسے شاعر بھی ان کی عظمت کے قائل تھے۔ فراق حسن، عشق اور انسانیت کا شاعر ہے۔ انھوں نے اردو شاعری کو نیا عاشق اور نیا معشوق دیا۔ ان کی غزلوں اور رباعیوں میں ہندوستانی مٹی کی خوشبو ملتی ہے۔

ان خیالات کا اظہار ممتاز محقق و ناقد ڈاکٹر سید تقی عابدی، کینیڈا نے آج ”فراق گورکھپوری کی شاعری میں جمالیات اور ارضیت پسندی“ کے موضوع پر توسیعی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ شعبہ¿ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی جانب سے سید حامد لائبریری آڈیٹوریم میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کے توسیعی خطبہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جلسے کی صدارت شیخ الجامعہ پروفیسر سید عین الحسن نے کی۔اس موقع پر ڈاکٹر تقی عابدی کی مرتب کردہ کتب ”کلیات فراق گورکھپوری“ اور ”مطالعہ رباعیاتِ فراق گورکھپوری مع روپ (تجزیہ، تنقید و تدوین)“ کی رونمائی شیخ الجامعہ پروفیسر عین الحسن نے کی۔

پروفیسر سید عین الحسن نے صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ فراق گورکھپوری پر فارسی کے عظیم شاعر حافظ شیرازی کا اثر نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے فراق گورکھپوری کی شاعری کے کئی اہم گوشوں سے واقف کرایا ہے۔

پروفیسر نسیم الدین فریس ڈین اسکول برائے السنہ لسانیات اور ہندوستانیات اور صدر شعبہ¿ اردو نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ بیسویں صدی میں جن شعرا نے اردو غزل کی روایت جو استحکام بخشا ان میں ایک اہم نام فراق گورکھپوری کا ہے۔ ان کے بارے میں جگر مرادآبادی نے کہا کہ لوگ ہم کو بھول جائیں گے لیکن فراق کو یاد رکھیں گے۔

سنسکرت ادبیات اور ہندوستان کی ہزاروں سال قدیم تہذیب و ثقافت پر فراق کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے مغربی ادبیات کا بھی عمیق مطالعہ کیا تھا اور اردو کی کلاسیکی غزل کی روایت کے پاسدار تھے۔ فراق کی غزلوں میں آج کی زندگی کا کرب بھی نظر آتا ہے۔ جلسے کی نظامت شعبے کے استاد ڈاکٹر ابوشہیم خاں نے کی اور ڈاکٹر بی بی رضا نے اظہار تشکر کیا۔پروگرام کا آغاز محمد سلمان، ایم اے اردو کے تلاوت قرآن سے ہوا۔ اس موقع پر نائب شیخ الجامعہ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ ، رجسٹرار انچارج پروفیسر صدیقی محمد محمود، ڈین بہبودیِ طلبہ پروفیسر سید علیم اشرف جائسی کے علاوہ اساتذہ و طلبہ کی کثیر تعداد موجود تھی۔