میرا بھارت مہان:جب اذان کی آواز سن کر رک گئی کانوڑ یاترا

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
میرا بھارت مہان :جب اذان کی آواز سن کر رک گئی کانوڑ یاترا
میرا بھارت مہان :جب اذان کی آواز سن کر رک گئی کانوڑ یاترا

 

 

شاہ عمران حسن ، نئی دہلی

سن کر حیرت ہوگی مگر یہی سچ ہے اور یہی حقیقت ہے کہ اذان کی آواز  آتے ہی کانوڑ یاترا  تھم گئی،  کانوڑیوں نے  سڑک کے کنارے آرام کرنے کو ترجیح دی - عبادت میں خلل نہ پڑے اس کا خیال رکھا-جس کو دیکھنے والے بے اختیار کہہ پڑے کہ ایسا دیس ہے میرا-

ہم جس ملک میں رہتے ہیں، یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ ساتھ ساتھ رہتے ہیں، یہاں کے لوگ اگرچہ الگ الگ مذاہب میں یقین رکھتے ہیں تاہم وہ ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرنا کبھی نہیں بھولتے ہیں۔ یہی اصلیت ہے جس کو کچھ ناخوشگوار واقعات سے مٹایا نہیں جاسکتا ہے-

اگر بات حالیہ دنوں کے کچھ واقعات کی کریں تو آپ کو ملک کی روایات اور تہذیب کے زندہ ثبوت  مل جائیں گے -  دراصل فیس بک پر ایک ایسی پوسٹ  سب کو چوکنا دیا  جو صارف پرتھ پال سنگھ کی تھی-جن کا تعلق کا تعلق اترپردیش کے دارالحکومت لکھنو سے ہے۔ وہ ایک معمر شخص ہیں۔ انہوں نے اپنے فیس بک اکاونٹ پر ایک آنکھوں دیکھی پیش کی -

پرتھ پال سنگھ اپنی  فیس بک وال پر 25 جولائی کو لکھتے ہیں کہ آپ سب سے کل کا ایک واقعہ شیر کرنا چاہوں گا۔ یہ دیکھ کرمیری آنکھوں میں ٹھنڈک پڑ گئی۔دراصل چار دن کی علالت اور گھر میں مسلسل رہنے کے بعد جب میں گھر سے باہر نکلا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ ایک منی ٹرک میں کانوڑیاتری اونچی آواز میں موسیقی کے ساتھ  جا رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ اچانک کانوڑ یاتریوں کا قافلہ رک گیا۔ موسیقی مکمل طور پر بند کر دی گئی۔ کانوڑ  سڑک کے کنارے بیٹھ گئے۔ یاترا پوری طرح سے تھوڑی دیر کے لیے روک دی گئی ۔

awaz

 اس وقت میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ماجرا کیا ہے اوریاترا کیوں روک دی گئی ہے۔ تقریباً 10 سے 15 منٹ کے بعد کانوڑیوں  کے مائک سے آواز آئی کہ نماز ہو گئی، اب چلنےکے لیے سب کھڑے ہو جائیں۔ درحقیقت جس جگہ کانوڑ کو روکا گیا تھا۔ اس سے قریب سو دو سو میٹر کے فاصلے پر ایک مسجد تھی، جہاں نماز کا وقت ہوگیا تھا۔ نمازی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں جمع ہوئے تھے۔ 

 نماز کے بعد پھر سے کانوڑ یاترا شروع ہوگئی۔ یہ بہت اچھی بات یہ تھی کہ یہ سب کچھ پولیس کے انتظامی نظام کا حصہ نہیں تھا بلکہ معصوم عقیدت مندوں نے خود اپنی صوابدید پر کیا۔ یہ نظارہ شاید زندگی بھر یاد رہے گا۔ میرے ذہن میں یہ آیا کہ اگر ہم سب ایک دوسرے کے مذہب کا اسی طرح احترام کریں گے تو فرقہ پرست طاقتیں اپنی موت آپ مرجائیں۔

awazthevoice

کانوڑ کا استقبال کرتے مسلمان

ابھی آپ نے ایک واقعہ سنا جب اذان کے وقت کانوڑ یاترا روک دی گئی اب آپ کو دوسرا منظر بھی دکھاتے چلیں، جب دیگر مذاہب خصوصاً مسلمان کانوڑ یاتریوں کا استقبال کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

خیال رہے کہ ان دنوں ساون چل رہا ہے۔ ساون کے دنوں میں کانوڑ یاترا نکالی جاتی ہے۔ کانوڑ یاترا کے دوران بڑی تعداد میں مسلمان کانوڑیوں کا استقبال کرتے ہوئے جگہ جگہ دکھائی دے رہے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو رہا ہے مسلمان اپنے اپنے علاقے سے گزرنے والے کانوڑ یاتوں کا تعاون کر رہے ہیں، کہیں ان کے لیے پھولوں سے استقبال کیا جا رہا ہے تو کہیں ان کے لیے میٹھے پانی اور شربت کا انتظام کیا جا رہا ہے۔

خود فیس بک صارف پرتھ پال سنگھ نے پھر ایک دوسرا واقع بھی اپنی فیس بک آئی ڈی پر لکھا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ قومی دارالحکومت  نئی دہلی کے مسلم  اکثریتی علاقے جعفرآباد روڈ پر نماز جمعہ کے بعد باغ والی مسجد کے باہر نمازیوں نے کانوڑ یاتریوں پھولوں سے استقبال کیا ۔ سفید کپڑے میں ملبوس باریش اور بے ریش مسلمانوں نے کانوڑ پر پھول برسائے جو اپنی مذہبی لباس پر یاتر پر جا رہے تھے۔'

اس قسم کے واقعات ہمیں اس بات کا سبق دیتے ہیں کہ اگر ہم اسی طرح ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرتے رہیں تو سماج دشمن طاقتوں خود بخود کمزور پڑجائیں۔

ہندوستان میں مذہب کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور مذہب ہمیں سچائی اور بھائی چارے کا راستہ دکھاتا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے مل جل کر زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے۔ پورے سال یہاں تہوار منائے جاتے ہیں، کبھی کبھی دو تہوار دو مختلف مذاہب کا ایک ساتھ آجاتا ہے تو کبھی الگ الگ دنوں۔ تاہم یہاں تہوار کے دوران بھی ہمیں اتحاد اور بھائی چارے کا منظر دکھائی دیتا ہے۔