نئی دہلی: مرکزی حکومت کی جانب سے پورے ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کے اعلان کے بعد بہار کی سیاست میں خاصی گرما گرمی دیکھی جا رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان لفظی جھڑپوں کے بعد اب بہار اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر تیجسوی یادو نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا ہے، جس میں انہوں نے ذات پر مبنی مردم شماری پر اپنے خیالات اور کچھ نئی تجاویز پیش کی ہیں۔
تیجسوی یادو نے اپنے خط میں لکھا: ملک بھر میں ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کے آپ کی حکومت کے حالیہ اعلان کے بعد، میں آپ کو محتاط امید کے جذبے کے ساتھ یہ خط لکھ رہا ہوں۔ برسوں سے آپ کی حکومت اور این ڈی اے اتحاد نے ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو تقسیم پیدا کرنے والا اور غیر ضروری قرار دے کر رد کیا۔ جب بہار نے اپنے وسائل سے ذات پر مبنی سروے کی پہل کی، تو مرکزی حکومت اور اس کے اعلیٰ قانونی افسران نے ہر قدم پر رکاوٹیں کھڑی کیں۔
آپ کی پارٹی کے اتحادیوں نے اس طرح کے ڈیٹا اکٹھا کرنے کی ضرورت پر ہی سوال کھڑے کیے اور متعدد نازیبا و غیر شائستہ تبصرے بھی کیے گئے۔ انہوں نے مزید لکھا: آپ کا یہ تاخیر سے لیا گیا فیصلہ اُن شہریوں کی اجتماعی آواز کو تسلیم کرتا ہے جنہیں طویل عرصے سے سماج کے حاشیے پر رکھا گیا ہے۔ بہار میں کیے گئے ذات پر مبنی سروے سے معلوم ہوا کہ او بی سی اور ای بی سی طبقے ریاست کی کل آبادی کا تقریباً 63 فیصد ہیں، جس نے برسوں سے قائم اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے پھیلائے گئے کئی مفروضوں کو چکنا چور کر دیا۔
ملک بھر میں ایسے ہی رجحانات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ میں پُرامید ہوں کہ جب یہ واضح ہوگا کہ پسماندہ طبقات ہماری آبادی کا بڑا حصہ ہونے کے باوجود زندگی کے ہر شعبے میں کم نمائندگی رکھتے ہیں، تو یہ ایک جمہوری بیداری کو جنم دے گا۔ تیجسوی یادو نے کہا کہ ذات پر مبنی مردم شماری کرانا سماجی انصاف کی طویل جدوجہد کا پہلا قدم ہے۔
My letter to PM Sh. @narendramodi Ji.
— Tejashwi Yadav (@yadavtejashwi) May 3, 2025
The decision to conduct the caste census can be a transformative moment in our nation's journey towards equality. The millions who have struggled for this census await not just data but dignity, not just enumeration but empowerment.… pic.twitter.com/t2uszNfjOH
انہوں نے زور دیا کہ اس مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر سماجی تحفظ اور ریزرویشن کا دائرہ آبادی کے تناسب کے مطابق بڑھایا جانا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آنے والی مردم شماری میں انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندی جیسے معاملات پر بھی توجہ دی جانی چاہیے، تاکہ انتخابی انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ او بی سی اور ای بی سی طبقات کو فیصلہ ساز اداروں میں مناسب سیاسی نمائندگی دی جائے۔
ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمان میں ان کی شمولیت "تناسبی نمائندگی" کے اصول پر ہونی چاہیے۔ ہمارا آئین ریاست کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ معاشی عدم مساوات کو کم کرے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے۔ جب ہمیں درست معلومات حاصل ہوں گی کہ کتنے شہری پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی معاشی حالت کیا ہے، تب ہی ہم مؤثر حکمت عملی تیار کر سکیں گے۔
تیجسوی یادو نے نجی شعبے میں بھی شمولیت اور تنوع کی بات کی۔ انہوں نے لکھا کہ نجی کمپنیاں جو عوامی وسائل سے فائدہ اٹھاتی ہیں، جیسے سستی زمین، سبسڈی، ٹیکس چھوٹ، بنیادی سہولیات اور مالی مراعات — ان پر بھی سماجی انصاف کے تقاضے لاگو ہونے چاہئیں۔ اس تناظر میں نجی شعبے میں بھی مساوات اور تنوع پر کھلی بحث ہونی چاہیے۔
خط کے آخر میں انہوں نے کہا: محترم وزیر اعظم، آپ کی حکومت ایک تاریخی موڑ پر کھڑی ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری کا فیصلہ ہمارے ملک کے مساوات کے سفر میں ایک انقلابی لمحہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے آبا و اجداد نے ان اعداد و شمار کے حصول کے لیے دہائیوں تک جدوجہد کی ہے۔ لہٰذا اب اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس ڈیٹا کو نظامی اصلاحات کے لیے استعمال کیا جائے گا یا پھر یہ بھی پچھلی کئی رپورٹوں کی طرح سرکاری فائلوں میں دفن ہو جائے گا؟
ایک بہاری نمائندے کی حیثیت سے، جہاں ذات پر مبنی سروے نے زمینی حقیقتوں سے پردہ اٹھایا ہے، میں آپ کو سماجی تبدیلی میں تعمیری تعاون کا یقین دلاتا ہوں۔ اس مردم شماری کے لیے جدوجہد کرنے والے لاکھوں افراد صرف ڈیٹا نہیں بلکہ احترام اور صرف شمار نہیں بلکہ بااختیاری کا انتظار کر رہے ہیں۔