لکھنؤ:دارالعلوم ندوۃ العلما میں سروے مکمل

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 15-09-2022
 لکھنؤ:دارالعلوم ندوۃ العلما میں سروے مکمل
لکھنؤ:دارالعلوم ندوۃ العلما میں سروے مکمل

 

 

آواز دی وائس، لکھنو

ریاست اترپردیش میں غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے جاری ہے۔ جمعرات کو سروے ٹیم لکھنؤ کے دارالعلوم ندوۃ العلما پہنچ کر اس کا سروے کیا۔ سروے کے بعد ضلع اقلیتی افسر سون کمار نے بتایا کہ دارالعلوم ندوۃ العلما کا سروے کرکے آمدنی کے ذرائع کا پتہ لگایا گیا ہے۔ عوام کی طرف سے دیے گئے عطیات کو مدرسہ چلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا یہاں طلباء کے لیے تمام سہولیات موجود ہیں۔ ان کی ایک لائبریری ہے، جس میں ڈھائی لاکھ کتابیں ہیں اور طلبہ کے بیٹھنے کے لیے جگہ ہے۔ ندوہ کا کچھ حصہ پرائیویٹ ہے اور کچھ حصہ لیز پر لیا گیا ہے۔

دارالعلوم ندوۃ العلما ملک کے سب سے بڑے مدارس میں سے ایک ہے۔ ریاست کے غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے فنڈنگ ​​سمیت 11 نکات کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔سروے کرنے والی ٹیموں کو 15 اکتوبر تک اپنا سروے مکمل کرنا ہے۔

ریاست کے تمام ضلع مجسٹریٹ 25 اکتوبر تک اپنی رپورٹ حکومت کو سونپیں گے۔ دراصل کئی مقامات پر اس سروے کی مخالفت ہو رہی ہے۔ مختلف مسلم تنظیمیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ سروے کے دوران ایس ڈی ایم، اے بی ایس اے اور ڈی ایم او موجود تھے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماکے نائب پرنسپل مولانا عبدالعزیز بھٹکلی، مولانا کمال اختر ندوی، مولانا اسماعیل بھولا، ایس ڈی ایم صدر نوین کمار، ضلع اقلیتی بہبود افسر سون کمار اور اے بی ایس اے نے 11 نکات پر جانکاریاں لی۔

 علمائے کرام نے کہا کہ ہم اس سروے کا تہہ دل سے خیرمقدم کرتے ہیں، جو سوال ہم سےحکومت چاہتی ہے۔ ہم اس کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ مدرسہ بورڈ کے چیئرمین نے کہا سروے کو تحقیقات نہ سمجھا جائے۔

awazthevoice

ندوہ کی عمارت

مدرسہ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد جاوید نے غیر تسلیم شدہ مدارس کے سروے سے متعلق ابہام پر وضاحت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیر تسلیم شدہ مدارس کے سروے کو کسی بھی شکل میں تحقیقات نہ سمجھا جائے۔ سروے کا مقصد مدارس کی صحیح تعداد معلوم کرنا ہے، تاکہ ضرورت پڑنے پر انہیں سہولیات فراہم کی جاسکیں۔

ڈاکٹر جاوید نے کہا کہ ریاست میں زیادہ تر مدارس عطیات اور زکوٰۃ کی رقم سے چل رہے ہیں۔ یہ مدارس غریب، بے سہارا اور یتیم بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے بچوں کے تعلق سے وزیر اعظم نریندر مودی کی نیت صاف ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان بچوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں کمپیوٹر ہو۔

ریاست میں پہلی بار مسلم مدارس کا سروے ہفتہ کو شروع ہوا۔ حکومت کے اس اقدام پر اپوزیشن جماعتیں مسلسل تنقید کر رہی ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس طرح کے اقدامات سے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

اس کے ساتھ ہی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیۃ علماء ہند جیسی مسلم تنظیموں نے بھی اس سروے کی مخالفت کی ہے۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سروے اس بات کا پتہ لگانے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ آیا وہاں طلباء کو بنیادی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔