وقف ترمیمی ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ آج کرے گا سماعت

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 05-05-2025
وقف ترمیمی ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ آج کرے گا سماعت
وقف ترمیمی ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ آج کرے گا سماعت

 



 

آواز دی وائس / نئی دہلی

سپریم کورٹ پیر، 5 مئی کو وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کرے گا۔ اس سے قبل مرکزی حکومت نے عدالت کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کے پیش نظر قانون کی دو متنازع دفعات پر عارضی طور پر روک لگا دی تھی۔17 اپریل کو مرکز نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ 5 مئی تک نہ تو "صارف کے ذریعے وقف" کے زمرے میں آنے والی جائیدادوں کو غیر نوٹیفائی کرے گا اور نہ ہی مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈز میں نئی تقرریاں کرے گا۔سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے چیف جسٹس سنجے کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل بینچ کے روبرو کہا کہ یہ قانون پارلیمنٹ کے مکمل آئینی عمل سے گزر کر منظور کیا گیا ہے، اس لیے حکومت کا مؤقف سنے بغیر اسے معطل نہیں کیا جانا چاہیے۔

عدالت کا مؤقف

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ "صارف کے ذریعے وقف" کی بنیاد پر جو جائیدادیں پہلے سے رجسٹرڈ ہیں یا نوٹیفکیشن کے ذریعے وقف قرار دی جا چکی ہیں، ان میں اگلی سماعت تک کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔عدالت نے مرکزی حکومت کو ابتدائی جواب داخل کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی اور اگلی سماعت 5 مئی مقرر کر دی۔ یہ معاملہ اب آئینی بینچ کے سامنے پانچ عرضیوں کے ایک مجموعے کے طور پر پیش کیا جائے گا، جن میں سے ایک آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسدالدین اویسی کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔

مرکز کا مؤقف

مرکزی حکومت نے 25 اپریل کو داخل کردہ حلف نامے میں ترمیم شدہ قانون کا دفاع کرتے ہوئے عدالت سے کہا کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ کسی قانون پر عدالت کی جانب سے مکمل پابندی لگانا مناسب نہیں۔حکومت نے "صارف کے ذریعے وقف" کے اصول کو ایک "تاریخی اور ضروری انتظام" قرار دیا، جس کے تحت وہ جائیدادیں جو طویل عرصے سے کسی مذہبی یا فلاحی مقصد کے لیے استعمال ہو رہی ہوں، وقف مانی جاتی ہیں، چاہے ان کے لیے باقاعدہ وقف نامہ موجود نہ ہو۔حکومت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 2013 میں ترمیم کے بعد وقف زمینوں میں 116 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو کہ بعض معاملات میں نجی و سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔حکومت کے مطابق، "1923 سے وقف جائیدادوں کا اندراج لازمی تھا، اس کے باوجود 'صارف کے ذریعے وقف' کے بہانے بعض افراد نے نجی اور سرکاری زمینوں پر غیر مجاز دعوے کیے۔

مسلمانوں کا  موقف 

 آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ  نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے سپریم کورٹ میں غلط اور گمراہ کن اعداد و شمار پیش کیے، اور بورڈ نے حلف نامہ داخل کرنے والے افسر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ وقف جائیدادوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو "حیران کن" قرار دینا دراصل حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہے۔سپریم کورٹ نے حال ہی میں واضح کیا کہ وہ اس معاملے میں 70 سے زائد عرضی گزاروں میں سے صرف 5 عرضیوں پر ہی سماعت کرے گا، اور نئی عرضیاں اب قبول نہیں کی جائیں گی۔ ۔ 5 مئی کو سپریم کورٹ جن پانچ درخواستوں پر سماعت کرے گی، ان میں جمعیت العلماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری محمد فضل الرحیم، منی پور نیشنل پیپلز پارٹی کے ایم ایل اے شیخ نورالحسن، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے لوک سبھا رکن اسد الدین اویسی اور محمد جمیل مرچنٹ شامل ہیں۔مولانا ارشد مدنی ایک ممتاز اسلامی اسکالر اور ملک بھر میں مسلم کمیونٹی کی اہم آواز مانے جاتے ہیں۔ محمد فضل الرحیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری کے طور پر دینی اور قانونی امور میں متحرک کردار ادا کر رہے ہیں۔ شیخ نورالحسن منی پور سے ایم ایل اے ہیں، جب کہ اویسی ملک کے ایک سینئر پارلیمنٹرین ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم سیاست کے اہم نمائندہ بھی ہیں۔جمیل مرچنٹ نے اس پیش رفت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میں خوش قسمت ہوں اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ اویسی اور دیگر اہم شخصیات کے درمیان ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی کا موقع ملا ہے۔واضح رہے کہ ممبئی کے رہائشی محمد جمیل مرچنٹ نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر دی ہے۔ یہ عرضی اس نئے قانون کو چیلنج کرنے والی مہاراشٹر سے پہلی درخواست ہے۔ محمد جمیل مرچنٹ، جو ایک غیر سیاسی شخصیت ہیں اور دو مساجد کے ذمہ دار بھی ہیں، کی جانب سے دائر کردہ عرضی میں وزارت داخلہ، وزارت اقلیتی امور، اور وزارت قانون و انصاف کے ذریعے یونین آف انڈیا کو فریق بنایا گیا ہے۔ اس درخواست میں وکیل اعجاز مقبول اور وکیل برہان بخاری بطور وکلائے صفائی پیش ہوئے ہیں۔عرضی گزار نے درخواست میں مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی دفعات کو غیر آئینی قرار دے یا کوئی ایسا حکم جاری کرے جو موجودہ حالات میں مناسب اور موزوں ہو۔ اس درخواست میں کے ایس پٹسوامی بمقابلہ یونین آف انڈیا کیس کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔

ممبئی میں مقیم سماجی کارکن محمد جمیل مرچنٹ نے جو حالیہ منظور شدہ اور نافذ العمل وقف (ترمیمی) ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے والے پانچ درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں،کہا ہے کہ ایکٹ کی منظوری سے پہلے, جو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) بنائی گئی تھی, وہ "مکمل طور پر غیر متعلقہ" ہے جمیل مرچنٹ نے مرکزی حکومت کی جانب سے گزشتہ کل داخل کئے گِئے حلف نامے کا جواب داخل کرتے ہوئے حکومت کے دلائل کا مدلل پیراگراف کے حوالے سے جواب دیا اور حکومت کے دعووں کو مسترد کرنے کے لئے قانونی جواز پیش کئے ۔ایکٹ پر عبوری روگ لگا کر عرضداشت پر مکمل سماعت کے بعد فیصلہ صادر کرنے کے لئے انہوں نے سپریم کورٹ کے مشہور فیصلے ڈاکٹر جے شری راو بمقابلہ مہارشرا حکومت و دہگر فیصلہ عبدالرحمان بمقابلہ فقیر محمد شاہ ناگپور ہائی کورٹ کا حوالہ دیتے ہوِئے انہوں نے کہا کہ کوئی بھی قانون جو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے- اس سے متاثرہ لوگوں کے لیے واضح طور پر نقصان دہ ہے۔مرچنٹ نے کہا کہ مرکزی حکومت جے پی سی کے کام پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، جس نے پارلیمنٹ میں بل پیش کرنے سے پہلے کئی گروپوں کے ساتھ بات چیت کی تھی۔ تاہم، انہوں نے استدلال کیا کہ ان مشاورت کا کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اگر قانون خود آئین کی واضح خلاف ورزی کرتا ہے تو وسیع بحث کسی قانون کو درست نہیں بنا سکتی۔

  محمد جمیل مرچنٹ نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر دی ہے۔ یہ عرضی اس نئے قانون کو چیلنج کرنے والی مہاراشٹر سے پہلی درخواست ہے۔ محمد جمیل مرچنٹ، جو ایک غیر سیاسی شخصیت ہیں اور دو مساجد کے ذمہ دار بھی ہیں، کی جانب سے دائر کردہ عرضی میں وزارت داخلہ، وزارت اقلیتی امور، اور وزارت قانون و انصاف کے ذریعے یونین آف انڈیا کو فریق بنایا گیا ہے۔ اس درخواست میں وکیل اعجاز مقبول اور وکیل برہان بخاری بطور وکلائے صفائی پیش ہوئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ آئین مانتا ہے کہ کوئی قانون درست ہے لیکن اس کو چیلنج کرنے والے اس مفروضے کو غلط ثابت کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک بنیادی قانونی اصول ہے کہ اگر کافی ثبوت پیش کیے جائیں تو اس مفروضے کو رد کیا جا سکتا ہے۔مرچنٹ نے اپنے حلف نامے میں کہا کہ یہ فیصلہ کرتے ہوئے کہ آیا کوئی قانون درست ہے یا نہیں، عدالتیں انفرادی مقدمات پر اس کے اثرات کو نہیں دیکھتیں کیونکہ ہر کیس کے اپنے مخصوص حالات ہوتے ہیں۔نئے ایکٹ کے بارے میں اپنے خدشات کی وضاحت کرتے ہوئے مرچنٹ نے کہا کہ یہ غیر مسلموں کو وقف بورڈ کے ممبر بننے کی اجازت دیتا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بھی سرکاری اراضی کو وقف کے نام سے منسوب نہیں کیا جائے گا۔ یہ ایکٹ وقف بورڈ کے تحقیقات اور فیصلہ کرنے کا اختیار ختم کرتا ہے کہ آیا کوئی جائیداد وقف ہے یا نہیں۔ مزید برآں، یہ مرکزی حکومت کو وقف رجسٹریشن، اکاؤنٹس، اور بورڈ کی کارروائیوں کے لیے قواعد بنانے کا اختیار دیتا ہے، اور کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) یا اس کے مقرر کردہ کسی بھی افسر کے ذریعہ آڈٹ کا حکم بھی دیتا ہے۔

وقف ایکٹ 2025 کی نمایاں خصوصیات

 

وقف جائیداد کے اندراج کے لیے ضلع کلکٹر کی رپورٹ لازمی قرار دی گئی ہے۔

 

جب تک کلکٹر تصدیق نہ کرے، کوئی جائیداد وقف تسلیم نہیں کی جائے گی۔

 

کلکٹر کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ فیصلہ کرے کہ کوئی جائیداد وقف ہے یا سرکاری ملکیت۔

 

وقف بورڈ کے فیصلوں کے خلاف اب ہائی کورٹ میں اپیل کی جا سکے گی۔

 

زبانی اعلانات اور "صارف کے ذریعے وقف" جیسے روایتی اصول ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

 

بغیر کسی دستاویزی ثبوت کے وقف دعوؤں کو مشکوک سمجھا جائے گا۔