خود کش حملہ اور اس کی حقیقت

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 07-09-2022
خود کش حملہ اور اس کی حقیقت
خود کش حملہ اور اس کی حقیقت

 

 

مولانا وحیدالدین خان

موجوده زمانے میں مسلمانوں کے اندر ان کی زوال یافتہ قومی نفسیات کے تحت ایک ایسا ظاہره پیدا هوا ہے جو غالبا تحلیل حرام (یسمونها اسمها فیستحلونها : سنن الدارمی، حدیث نمبر 2145) کی سنگین ترین صورت ہے، اور وه ہے خودکش بمباری- یعنی مفروضہ دشمن کو ہلاک کرنے کے لیے اپنے آپ کو بم سے اڑا دینا-

یہ طریقہ بلاشبہ نص شرعی کے مطابق ایک حرام فعل ہے- کچهہ علماء نے بطور خود، خود کش بمباری کے اس فعل کو استشہاد (طلب شہادت) کہہ کر جائز قرار دیا ہے- مگر اس قسم کا استدلال گناه پر سرکشی کا اضافہ ہے- اس قسم کا کوئی بهی خود ساختہ فتوی خودکش بمباری جیسے صراحتا ناجائز فعل کو جائز قرار نہیں دے سکتا-

ایک حدیث اس معاملے میں قطعی حکم کی حیثیت رکهتی ہے- یہ حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے، مثلا صحیح البخاری )حدیث نمبر 3062)، صحیح مسلم (حدیث نمبر 112) ، مسند امام احمد (حدیث نمبر 8090)، وغیره- ان مختلف روایتوں کے الفاظ تقریبا یکساں ہیں- روایت کے مطابق صحابی بیان کرتے ہیں کہ هم ایک غزوه میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تهے- ہمارے ساتھ ایک شخص تها جو ایمان لاچکا تها-

 اس کا نام قزمان تها- جنگ هوئی تو یہ شخص شدید طور پر لڑا- لوگ اس کی بہادری کی تعریف کرنے لگے- مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کہا کہ وه اہل جہنم میں سے ہے- لوگوں کو آپ کے اس قول پر یقین نہیں هوا- آپ نے کہا کہ جا کر اس کی تحقیق کرو- جب لوگوں نے اس کی تحقیق کی تو معلوم هوا کہ جنگ میں وه شدید طور پر زخمی هوگیا تها- پهر زخموں کی تاب نہ لا کر اس نے اپنے آپ کو خود اپنے ہتهیار سے ہلاک کر لیا- اس کے بعد آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا کہ میں گواہی دیتا هوں کہ میں اللہ کا رسول هوں-

یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام میں خودکشی مطلق حرام کی حیثیت رکهتی ہے- حتی کہ کوئی شخص بظاہر پیغمبر کا ساتهی هو، اور وه غزوه میں لڑ کر بہادری دکهائے لیکن آخر میں وه اپنے آپ کو خود اپنے ہتهیار سے مار کر اپنا خاتمہ کر لے تب بهی اس خودکشی کی بنا پر اس کی موت، حرام موت قرار پائے گی- کسی بهی عزر کی بنا پر اس کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا-

اگر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے، اور وه لڑتے هوئے مارے جائیں تو یہ جائز ہے- لیکن قصدا اپنے جسم کے ساتھ بم باندهنا، اور مفروضہ دشمنوں کے درمیان جاکر بم دهماکہ کر دینا، جس میں وه آدمی خود بهی مرے، اور دوسرے بهی مارے جائیں- یہ طریقہ صراحتا خود کشی کا طریقہ ہے، اور وه یقینی طور پر اسلام میں ناجائز ہے-

 اہل ایمان کے لیے حملے کے خلاف جنگ کرنا جائز ہے- اور اگر وه مقابلہ کرنے کی حیثیت میں نہ هوں تو اس کے بعد ان کے لیے کرنے کا جو کام ہے، وه صبر ہے، نہ کہ خودکش حملہ- مگر اس معاملے میں موجوده مسلمانوں کا آبسیشن(obsession) اتنا بڑها هوا ہے کہ کوئی اس پر سوچنے کے لیے تیار نہیں-( الرسالہ، جون ، 2015)