پونے میں جہیز کے خلاف سماجی بیداری مہم کا آغاز

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-03-2021
جہیز کے خلاف بیداری مہم
جہیز کے خلاف بیداری مہم

 

 

شاہ تاج خان -پونے

گجرات کی عائشہ کی خودکشی کے بعد اٹھے طوفان نے ملک کو جھنجھوڑ دیاہے۔ موت کا سبب کہیں نہ کہیں جہیز بھی بیان کیا گیا ہے۔جس کے سبب ا ب ملک میں جہیز کی برائی کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ اس مرض کا علاج کیسے ہواور اس کے خاتمے میں کون کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔ بہرحال ایک سماجی برائی کے خلاف بیداری پیدا کرنے کی کوشش ایک بار پھر نئے سرے سے شروع ہورہی ہے جس کے تحت جمعیتہ علماء ہند ضلع پونے کی جانب سے جہیز کے خلاف مہم کا جمعہ سے باقاعدہ آغاز کیا گیا۔

ائمہ مساجد سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ جہیز جیسی لعنت پر ہر جمعہ میں اپنی مساجد پر بیان فرمائیں اور لوگوں کو بتائیں کہ جہیز کے لئے اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔۔اسلام میں جہیز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔۔اسلام سادگی کا دین ہے۔اس موقع پر  جمعیتہ علماء ہند ضلع پونے کے صدر حافظ محمد کفایت اللہ کا کہنا تھا کہ جہیز جیسی لعنت کی شریعت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔اس کے علاوہ علماء،ائمہ مساجداور دیگر ذمہ داران مدارس سے خاص طور پر گذارش کی گئی ہے کہ وہ ایسے نکاح کا بائیکاٹ کریں جس میں لوگ جہیز اور اس طرح کی دیگر خرافات میں مبتلا ہیں۔اس کوشش پر زیادہ تر مساجد نے عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

مسجد نورِحرا کے امام فاروق شیخ نے کہا کہ”۔ حالانکہ کورونا وبا کے دوبارہ خطرے کے سبب مساجد میں بیان کا سلسلہ بند کر دیا گیا تھا لیکن عائشہ کی خودکشی کے سبب جہیز کے موضوع پر آج پانچ منٹ مجبوراً بولنا پڑا۔”انہوں نے خاص طور پر کہا کہ ”۔ پیغمبر اسلام کے دور میں نکاح بہت آسان تھا،مگر اب جہیز کی برائی نے نکاح کو ایک مشکل بنا دیا ہے۔آج حالت یہ ہے کہ جب بچی دس یا بارہ سال کی ہوتی ہے تو اسی وقت سے ماں باپ کی نیند حرام ہوجاتی ہے۔وہ سوچنے لگتے ہیں کہ بچی کے جہیز کیلئے اب کیا کرنا ہے۔ کپڑے،کھانے،ہال اور طرح طرح کے خرچ ان کیلئے عذاب بن جاتے ہیں۔پھر رشتہ کی تلاش میں زندگی گزر جاتی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ لڑکی کا وزن کم ہے۔یہ کوئی جواز ہے جس کی بنیاد پر کوئی رشتہ ٹھکرا سکتا ہے۔ یہ معاشرے کی تباہی کا معاملہ ہے۔

نکاح کو اگر آسان نہیں بنائیں گے تو نہ جانے کتنی لڑکیا ں ایسے ہی مر جائیں گی۔“ یاد رہے کہ ہندوستان میں 1961 میں ہی جہیز کو جرم قرار دے دیا گیا تھا لیکن یہ قانون بھی لوگوں کو جہیزلینے اور دینے سے نہیں روک سکا۔جہیز کا مسئلہ آج بھی جو ں کا توں برقرار ہے۔ اس کے علاوہ امام صاحب نے جہیز کے دوسرے پہلو پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کبھی کبھی جب لڑکی والے طاقت ور ہوتے ہیں اور لڑکی کو تنگ کرنے کی صورت میں وہ لڑکے کے پورے گھر کو جیل بھیجنے میں دیر نہیں کرتے تب لڑکے کاپوراگھر عدالت کے چکر کاٹتا رہتا ہے۔جس کے سبب اکثر دونوں ہی گھر تباہ ہو جاتے ہیں۔اس لئے اس جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ کل ملا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جہیز ایک ناسور بن چکا ہے اس کے علاج کے لئے شور نہیں بلکہ شعور کی ضرورت ہے۔

ہر شخص کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا۔اگر ہر شخص یہ طے کرلے کہ وہ نہ جہیز لے گااور نہ ہی جہیزدے گاتو یہ مسئلہ خود بہ خود حل ہوجائے گا۔صرف نعرے بازی اور بیان بازی سے کچھ وقت کے لئے ہلچل تو پیدا ہوجاتی ہے لیکن مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ باقاعدہ ایک لائحہ عمل تیار کر کے اس ضمن میں مساجد میں کوشش کی جارہی ہے کہ لوگوں کو سمجھایا جاسکے کہ اسلام میں جہیز کی کیا حیثیت ہے۔

مسجد نورِ حرا کے امام فاروق شیخ نے نکاح کو آسان بنائے جانے پر خاص توجہ دیئے جانے پر زور دیا۔ حالانکہ آج یہ پہلا موقع تھا اور پونے کی کئی مساجد میں اس طرح کے بیان کا اہتمام کیا گیا۔اور لوگوں کومختلف انداز میں جہیز کی تباہ کاریوں کو سمجھانے کی کوشش کی گئی۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ہر جمعہ کے روز ملنے والی ہدایات لوگوں کو جہیز کی تباہیوں پر غور و فکر کی دعوت ضرور دیں گی۔