سرسید ڈے کے جشن اور رونق میں ڈوبا اے ایم یو

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 17-10-2022
 سرسید ڈے کے جشن اور رونق میں ڈوبا اے ایم یو
سرسید ڈے کے جشن اور رونق میں ڈوبا اے ایم یو

 

 

علی گڑھ : علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے بانی سرسید احمد خاں ؒ کے 205 ویں یوم پیدائش کے موقع پر منعقد ہونے والی یوم سرسید کی تقریبات کا اہتمام دو سال کی کووِڈ پابندیوں کے بعد آج روایتی جوش و خروش کے ساتھ مہمانوں اور شرکاء کی بھرپور موجودگی میں کیا گیا۔ مخصوص مدعو مہمان، روایتی انداز میں وی سی لاج سے بگھی پر سوار ہوکر یونیورسٹی کے رائیڈنگ اسکواڈ کے ہمراہ گلستان سید پہنچے، جہاں رائیڈنگ اسکواڈ کے طلباء کی ٹیم انہیں اسٹیج تک لے گئی۔

 جشن یوم سرسید کی یادگاری تقریر کرتے ہوئے مہمان خصوصی پروفیسر طاہر محمود (سابق چیئرمین، قومی اقلیتی کمیشن) نے اے ایم یو برادری کو سرسید کی عقلیت، جدیدیت، روایات اور ہمدردی کے جذبہ کو ملک اور دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کی دعوت دی۔ انھوں نے کہاکہ اردو کا تحفظ اور ترویج بھی سرسید کی میراث کا ایک اہم حصہ ہے جس پر ہماری توجہ کی ضرورت ہے۔

 انہوں نے سرسید کے افکار اور ان کے پیغام پر گہری توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا جو علامہ اقبال کے کلام سے ان کی ایک نظم ”سید کی لوح تربت“ سے ظاہر ہوتی ہیں۔        پروفیسر طاہر محمود نے کہا ”علامہ اقبال نے سرسید کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا، ’مُدعا تیری اگر دنیا میں ہے تعلیم دین، ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں‘۔ اس تناظر میں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سرسید معاشرے کو بیدار کر رہے تھے اور نئے نظامِ تعلیم کے لیے اُس دور میں قائل کر رہے تھے جب نظامِ تعلیم کے عقلی اور روایتی پہلو آپس میں جڑے ہوئے تھے اور اس نے مذہبی تعلیم کی شکل اختیار کر لی تھی“۔

 انھوں نے کہا ''سرسید نے مشرقی اور مغربی دنیا کے درمیان خلیج کو ختم کرنے میں ایک بہت ہی مؤثر کردار ادا کیا۔ وہ جانتے تھے کہ آگے بڑھنے اور باقی دنیا سے ہم آہنگ رہنے کے لیے معاشرے میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی روایت اور جدیدیت کے درمیان توازن قائم کرنے کے لیے وقف کر دی اور روایتی مشرقی اور مغربی تعلیم کے لیے جدوجہد کی“۔

 خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا، ”سرسید کے سیکولرزم اور جامعیت کے نظریات اے ایم یو کے کام کرنے کے طریقے سے ظاہر ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی وسیع المشرب رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال ہے اور اس کے دروازے اپنے آغاز سے ہی تمام کمیونٹیز کے طلباء کے لیے کھلے ہوئے ہیں“۔

  وائس چانسلر نے کہا ''ہم نے کیمپس میں امن و ہم آہنگی کو برقرار رکھا ہے اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور اتحاد و اتفاق پر زور دیتے ہوئے چیلنجوں، مسائل اور بحرانوں پر کامیابی سے قابو پایا ہے''۔

awazthevoice

 انہوں نے زور دے کر کہا: ”اے ایم یو ترقی کررہا ہے۔ وزیر اعظم جناب نریندر بھائی مودی نے صد سالہ تقریبات میں شرکت کرتے ہوئے اے ایم یو کو ’مِنی انڈیا‘ کہا اور قوم کی تعمیر میں یونیورسٹی کے تعاون کی تعریف کی۔ وزیر اعظم کی شرکت کے علاوہ، پچھلے پانچ برسوں میں اس وقت کے صدر جمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند اور دیگر افراد کی یونیورسٹی کے مختلف پروگراموں میں شرکت ہوئی“۔

  پروفیسر منصور نے مزید کہا: ”کووڈ وبا کے باوجود اے ایم یو میں ریکارڈ تعداد میں نئے کورسز، کالجز اور شعبے شروع ہوئے“۔ وائس چانسلر نے یونیورسٹی کے بڑھتے ہوئے تعلیمی معیار کی طرف توجہ مبذول کرائی اور کہا، ”اے ایم یو کو نیشنل اسسمنٹ اینڈ ایکریڈیٹیشن کونسل (نیک) نے اے پلس گریڈ عطا کیا ہے اور قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) 2020 کو بھی نصاب تعلیم میں تبدیلیوں کے ساتھ نافذ کیا جا رہا ہے“۔

 وائس چانسلر نے زور دیتے ہوئے کہا ”جب ہم یہاں اپنے فعال اور مثالی کردار کے حامل محسن، سر سید کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں تو ہمیں یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ انھوں نے قوم اور سماج کی تقدیر کیسے سنواری۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے حامل انسان اور جدید ہندوستان کے ممتاز معمار تھے“۔

  انہوں نے کہا: ”سر سید کا پختہ یقین تھا کہ جدید تعلیم میں آج کی تمام بیماریوں کا علاج ہے۔ انھوں نے جہالت کو تمام آزمائشوں اور مصیبتوں کی ماں قرار دیا۔ تعلیم کا ان کا تصور جامع اور سبھی کو شامل کرنے والا تھا اور ان کا پختہ یقین تھا کہ ہندوستانی اس وقت تک بااختیار ہونے کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ اپنے تعلیمی ادارے نہ بنائیں — اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جدید تعلیم کا بیڑا اٹھایا اور پوری زندگی اس پر سختی سے عمل کیا۔ اسی کو ہم ’علی گڑھ تحریک‘ کہتے ہیں“۔

  وائس چانسلر نے زور دے کر کہا: ”سرسید کو صرف اس کالج کے بانی کے طور پر ماننا جو ایک یونیورسٹی بنا، ایک بہت سادہ سی بات ہے۔ سرسید جس عہد میں پلے بڑھے اور جن حالات کا انھوں نے سامنا کیا اس کو ذہن میں رکھنا اور کس طرح وہ انیسویں صدی کے نوآبادیاتی ہندوستان کے سماجی و ثقافتی جال سے باہر نکلے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ سرسید نے جو کچھ کیا اس کی تفہیم و ادراک کے لیے ہمیں اس حقیقت کو دیکھنا ہوگا کہ وہ 1817 میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جو مغل دربار کے قریب تھا۔ روایتی پرورش نے انھیں  1857 میں تباہی کے دہانے پر پہنچ جانے والے مسلمانوں کے کاز کو بلند کرنے اور ہندوستان میں رہنے والے مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان اتحاد کے لیے بھی سینہ سپر ہونے سے نہیں روکا۔

awazthevoice

  پروفیسر منصور نے کہا”سماج اور قوم کے لیے سرسید کی گہری فکر اس حقیقت سے واضح ہو جاتی ہے جب ہم ثقافت اور تہذیب، اخلاق و کردار، سماجی تعلقات، مختلف علوم، رسوم و رواج، مذہب و فلسفہ، قرآن کی تعلیمات اور ہندو مسلم اتحاد جیسے متنوع مسائل و موضوعات پر ان کی تحریروں اور تقاریر کو دیکھتے ہیں“۔

  تاریخی حوالے دیتے ہوئے انھوں نے یاد دلایا: 27 جنوری 1884 کو گورداسپور میں ایک اجتماع میں سر سید نے اپنا مشہور جملہ کہا تھا، 'اے ہندوؤ اور مسلمانو! کیا تمھارا تعلق ہندوستان کے علاوہ کسی اور ملک سے ہے؟ کیا تم اس سرزمین پر نہیں رہتے اور کیا تم اس کے نیچے دفن نہیں ہوتے یا اس کے گھاٹوں پر تمھاری آخری رسوم نہیں ہوتیں؟ اگر تم اس سرزمین پر جیتے اور مرتے ہو تو یاد رکھو کہ 'ہندو' اور 'مسلم' صرف ایک مذہبی لفظ ہے۔ تمام ہندو، مسلمان اور عیسائی جو اس ملک میں رہتے ہیں ایک قوم ہیں“۔

   پروفیسر منصور نے تعلیم، آزادانہ جستجو، رواداری، بین المذاہب افہام و تفہیم اور قومی اتحاد کے لیے سرسید احمد خاں کے پیغام کو عام کرنے پر زور دیا۔ وائس چانسلر نے اس موقع پر یہ اعلان کیا کہ منگل کو یونیورسٹی میں تدریسی سرگرمیاں معطل رہیں گی۔

  مہمان خصوصی پروفیسر طاہر محمود اور وائس چانسلر پروفیسر منصور نے برصغیرہند میں مسلمانوں کی تاریخ اور جنوبی ایشیا و اسلام پر علمی و تحقیقی خدمات کے لئے باربرا ڈیلی میٹکاف (یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، ڈیوس، امریکہ میں تاریخ کی پروفیسر ایمریٹس) کو دو لاکھ روپے نقد انعام پر مشتمل ’انٹرنیشنل سر سید ایکسیلینس ایوارڈ‘ پیش کیا۔

   اس کے ساتھ ہی انہوں نے خاص طور سے تعلیمی طور پر پسماندہ اقلیتوں اورعام طور سے دیگر کمزور طبقات میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے مشہور ادارے ’مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ کو ’نیشنل سر سید ایکسیلینس ایوارڈ‘ سے نوازا۔

   اے ایم یو رجسٹرار مسٹر محمد عمران (آئی پی ایس) نے ایوارڈ یافتگان کے سپاس نامے پڑھ کر سنائے۔

 یادگاری تقریب میں مہمان اعزازی کے طور پر شرکت کرتے ہوئے مسٹر چندن سنہا (آئی اے ایس آفیسر اور ڈائریکٹر جنرل، نیشنل آرکائیوز آف انڈیا) نے کہا: یہ سالانہ تقریب صرف سر سید احمد خاں اور ان کی خدمات کو یاد کرنے کا موقع نہیں ہے، بلکہ یہ پیچھے مڑکر دیکھنے کا بھی موقع ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کہاں سے شروع ہوئی اور یہ کس طرف جارہی ہے، یہ موقع ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں اور نہ صرف اس بات کو یقینی بنائیں کہ قدیم روایات کو ترک نہ کیا جائے بلکہ مستقبل کے تقاضوں کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔

  انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا، ”سر سید نے بہت واضح طور پر یہ دیکھ لیا تھا کہ ہندوستانی عوام کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے تجرباتی نظریہ، سائنس و ٹکنالوجی پر زور دینے والی تعلیم ناگزیر ہے۔ ان کی انتھک کوششوں سے کئی اداروں کی تاسیس ہوئی جو محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کے قیام پر منتج ہوئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے اپنی جدوجہد کے دوران سر سید نے پورے ہندوستان اور ہندوستانی سماج کی ضرورتوں کی بات کی، صرف مسلمانوں کی بات نہیں کی۔ ان کا یہ خیال کہ مسلمان مغربی تعلیم اور اس کے فوائد حاصل کرنے میں ہندوؤں کے مقابلے سست روی کا مظاہرہ کر رہے ہیں حقائق پر مبنی تھا۔ اس طرح مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ان کی جدوجہد اور لگن غیر معمولی تھی“۔

awazthevoice

   پروگرام کے دوسرے مہمان اعزازی جسٹس اقبال احمد انصاری (سابق چیف جسٹس،پٹنہ ہائی کورٹ) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: ”سر سید سیکولرزم اور ہندو مسلم اتحاد کے پیامبر تھے جنہوں نے گائے کا ذبیحہ نہ کرنے کی وکالت و حمایت کی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ”اگر گائے کی قربانی پر پابندی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان امن ودوستی قائم کر سکتی ہے تو مسلمانوں کا اس حق سے دستبردار نہ ہونا غلط ہوگا“۔

    انہوں نے کہا: ''سرسید نے ایک آزاد مفکر، ایک بہتر منتظم، ایک مصلح، ایک ماہر تعلیم اور ایک مذہبی اسکالر کے ہمہ جہت کردار کو بخوبی نبھایا۔ وہ مغربی طرز کی تعلیم اور دنیا کا جدید نقطہ نظر حاصل کرنے کے حامی تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ باقی دنیا کے ساتھ تال میل کی خاطر ہندوستانیوں کے اندر اسی بنیادی تحریکی قوت کی ضرورت ہے“۔

اس موقع پر پروفیسر فرخ ارجمند (شعبہ کیمسٹری) اور ڈاکٹر حفظ الرحمن صدیق (شعبہ زولوجی) کو سال کے بہترین محقق کا انوویشن کونسل کا ایوارڈ پیش کیا گیا۔ انہیں الگ الگ پچاس ہزار روپے بطور انعام دئے گئے۔

  سینٹر فار ڈیولپمنٹ اسٹڈیز، تھرووانتھاپورم، کیرالہ کے پی ایچ ڈی کے طالب علم صبیر وی سی کو ”سرسید اور ثقافتی تکثیریت“ موضوع پر منعقدہ کل ہند سرسید مضمون نویسی مقابلے میں انگریزی زبان کا اوّل انعام پیش کیا گیا، جب کہ اے ایم یو کی پی ایچ ڈی اسکالر ادیبہ صدیقی کو اردو اور اے ایم یو کے بی اے ایل ایل بی کے طالب علم محمد سلیم کو ہندی کا اوّل انعام پیش کیا گیا۔تینوں فاتحین کو سرٹیفیکیٹ کے ساتھ فرداً فرداً پچیس ہزار روپے بطور انعام دئے گئے۔

 مضمون نویسی مقابلے کا اہتمام اے ایم یو کے دفتر رابطہ عامہ نے کیا تھا۔

   انگریزی، اردو اور ہندی میں پندرہ ہزار روپئے پر مشتمل دوئم انعام بالترتیب، محمد سہیل مونڈل (بی اے، نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسلامک اینڈ کنٹمپریری اسٹڈیز، دارالہدیٰ اسلامک یونیورسٹی، کیرالہ)، محمد تنویر عالم (ایم اے، عالیہ یونیورسٹی، کولکاتہ) اور حفصہ مرزا (بی یو ایم ایس، ایچ ایس زیڈ ایچ یونانی میڈیکل کالج و اسپتال، بھوپال، مدھیہ پردیش) نے حاصل کیا۔

   انگریزی، اردو اور ہندی میں دس ہزار روپے پر مشتمل سوئم انعام بالترتیب، مبشر وی پی (پی ایچ ڈی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)، محمد اقبال (بی اے، عالیہ یونیورسٹی، کولکاتہ) اور رمن شرما (ایم ٹیک، اندرا گاندھی دہلی ٹیکنیکل یونیورسٹی، دہلی) کو دیا گیا۔

   اے ایم یو کے پرو وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے بعد ازاں طلباء کے ریسرچ اینڈ انوویشن ایوارڈ تقسیم کئے۔

  اے ایم یو کے اساتذہ پروفیسر ثمینہ خان اور پروفیسر سعود عالم قاسمی اور طلباء میں سے مس جویریہ رحمان اور جاوید اشرف نے سرسید احمد خاں کی خدمات، فلسفہ، اور مشن پر تقریریں کیں۔

awazthevoice

    آخر میں پروفیسر محمد گلریز نے شکریہ کے کلمات ادا کئے۔ یوم سرسید تقریب کی نظامت کے فرائض مشترکہ طورسے ڈاکٹر فائزہ عباسی اور ڈاکٹر شارق عقیل نے انجام دئے۔

 اس موقع پر مسٹر مجیب اللہ زبیری (کنٹرولر)، پروفیسر محمد محسن خان (فنانس آفیسر) اور پروفیسر محمد وسیم علی (پراکٹر) دیگر معززین کے ساتھ موجود تھے۔

  اس سے قبل دن کی کارروائی کا آغاز یونیورسٹی جامع مسجد میں نماز فجر کے بعد قرآن خوانی سے ہوا۔

 وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے یونیورسٹی کے اساتذہ اور افسران کے ہمراہ سرسید کی تربت پر چادر پوشی کے ساتھ گلہائے عقیدت پیش کئے۔

 وائس چانسلر نے سرسید ہاؤس میں سرسید علیہ الرحمہ سے متعلق کتابوں اور تصویروں کی نمائش کا بھی افتتاح کیا۔ اس نمائش کا اہتمام مولانا آزاد لائبریری اور سرسید اکیڈمی نے مشترکہ طور پر کیا۔