شہناز رحمان:عدالتوں میں ثالثی کی رہبر بھی،مسیحا بھی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 26-03-2022
شہناز رحمان:عدالتوں میں ثالثی کی رہبربھی غریبوں کی  مسیحا بھی
شہناز رحمان:عدالتوں میں ثالثی کی رہبربھی غریبوں کی مسیحا بھی

 

 

دولت رحمان/گوہاٹی

 ایڈووکیٹ شہنازرحمان کے لیے قانون کی مشق کرنا صرف اپنےآپ کو عدالت کے کمروں کی چہاردیواری میں قید رکھنے، بحث کرنے اور ججوں کو اپنے مؤکلوں کے حق میں فیصلہ سنانے کے لیے راضی کرنا ہی نہیں ہے،بلکہ شہناز رحمان کے لیے ایک اہم ذمہ داری ہے، جہاں غریب اور پسماندہ طبقات کو انصاف بہم پہنچانا ہے۔

شہناز رحمن مختلف پلیٹ فارمز پر کام کر رہی ہیں تاکہ لوگوں کو اور خاص طور پر غریب و پسماندہ طبقات کو ہندوستانی قانونی نظام کے مثبت فوائد حاصل کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔

گوہاٹی ہائی کورٹ اور نچلی عدالتوں میں پریکٹس کرنے کے بعد شہناز رحمان نے سال 2012 میں ’ثالثی‘ (Mediation)کی تربیت حاصل کی تھی۔ اس کے بعد سے وہ آج تک گوہاٹی ہائی کورٹ اور اس کی ماتحت عدالتوں میں ثالثی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ثالثی دراصل ایک متبادل تنازعات کے حل (Alternative Dispute Resolution-ADR)کا نظام ہے۔ عدالت کے باہر قانونی تنازعات کو بہت کم وقت میں طے کرنے کا یہ ایک دلچسپ عمل ہے۔ موجودہ حالات میں اس کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔

اس کےتحت طویل عرصے سے زیرالتوا مقدمات بہت کم وقت میں نمٹائے جاتے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں کہا کہ ایک ثالث ہونے کے ناطے مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کام مجھے متحرک بھی رکھتا ہے۔ نیزجب کوئی معاملہ فریقین کے درمیان باہمی طور پر طے پا جاتا ہے مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ شہناز رحمان کہتی ہیں کہ میں گزشتہ 10 سالوں سے آسام میں جائیداد کے تنازعات، ازدواجی اور خاندانی تنازعات اور دیگر قانونی تنازعات کے بے شمار معاملات کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے میں کامیاب ہوئی ہوں۔

awazthevoice

شہناز رحمان کے مختلف پروگرامز

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے ایک انٹرویو کے ذیل میں شہناز رحمان کہتی ہیں کہ ثالث کی ذمہ داری نے انہیں آسام کے اندرونی اور دیہی علاقوں میں کیمپ لگا کر عام لوگوں میں قانونی بیداری پیدا کرنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ریاستی قانونی خدمات اتھارٹی ایک این جی او کی طرف سے اس طرح کے بیداری کیمپوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ شہناز رحمان نے لوک عدالتوں میں ایک مصالحت کار کے طور پر بھی کام کیا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ عدلیہ میں ثالثی کا نظام میرے لیے زیادہ دلچسپ ہے کیونکہ میں کالج میں اے ڈی آر کا مضمون بھی پڑھاتی ہوں اور طلباء کے ساتھ ان کی عملی کلاسوں کے لیے لوک عدالتوں میں بھی جاتی ہوں۔ سنہ1995میں شہناز رحمان نے بی آر ایم گورنمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ لاء کالج میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ آج بھی کالج میں پڑھاتی ہیں۔ تعلیم میرا جنون ہے کیونکہ اس سے مجھے یہ موقع مل رہا کہ میں ایسے وکیل تیار کرسکوں جو مستقبل میں غریب و پسماندہ طبقات تک انصاف پہنچانے کا باعث بنیں۔

یہ میرے لیے ایک قسم کا تناؤ شکن کام  ہے۔ چونکہ قانون کا کورس اب پانچ سالہ پیشہ ورانہ کورس ہے، اس لیے کورس میں شامل ہونے والے طالب علموں قانون کو بطور کیریئر حاصل کرنا ایک بہت ہی پے چیدہ اورسنجیدہ عمل ہے۔ تاہم مجھے انہیں یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے کہ میرے طلبا پاس آؤٹ ہونے کے بعد قانونی پیشے میں شامل ہورہے ہیں۔ میں جب بھی انہیں عدالت میں دیکھتی ہوں تو مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ وہ میرے طالب علم ہیں۔

شہناز رحمان گوہاٹی کے مسلم گھرانے میں پیدا ہوئی اور وہیں پرورش پائی۔ شہناز رحمان نے اپنی ابتدائی تعلیم لوریٹو کانونٹ، شیلانگ میں حاصل کی اور پھر سینٹ میریز کانونٹ، گوہاٹی سے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ انہوں نے کاٹن کالج (کاٹن یونیورسٹی) سے پولیٹیکل سائنس میں آنرز کے ساتھ گریجویشن مکمل کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے دہلی یونیورسٹی کے تحت لیڈی شری رام کالج سے پوسٹ گریجویشن کیا اور پھر گوہاٹی یونیورسٹی سے 'بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے ہند-پاک تعلقات' (1971-1981) کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہیں انہوں نے سنہ 1986میں بی آر ایم گورنمنٹ لاء کالج، گوہاٹی سے ایل ایل بی بھی مکمل کیا۔

awaz

شہناز رحمان ایک پولیس پروگرام کے دوران

شہناز رحمان آسام ریاستی کمیشن برائے خواتین(Assam State Commission for Women ) کی تاسیسی رکن بھی رہ چکی ہیں اور اس کے علاوہ تین بار وہ اس کی رکن بھی منتخب ہوئی ہیں۔ چونکہ خواتین کو بااختیار بنانا ہمیشہ ان کی ترجیہات میں شامل رہا ہے۔ اس لیے شہناز رحمان نے خواتین کی بہبود کے کمیشن میں خاص طور پر غریب اور پسماندہ لوگوں کے لیے اپنے عہدے اور طاقت کا استعمال کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ آسام ریاستی کمیشن برائے خواتین کی رکن کی حیثیت سے میں نے قانونی مشاورتی کمیٹی قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

جہاں ہفتہ میں ایک بار وکیل، پولیس افسر، ڈاکٹر، سماجی کارکن کے ساتھ ساتھ چیئرپرسن بھی بیٹھ کرخواتین کے خلاف شکایت کی سماعت کے لیے بیٹھا جاتا تھا۔ آسام ریاستی کمیشن برائے خواتین کے ذریعہ کچھ قانون سازی مثلاً آسام ڈائن ہنٹنگ (ممنوعیت، روک تھام اور تحفظ) ایکٹ کا مسودہ بھی تیار کیا گیا۔اس میں بھی انہوں نے اپنا کردار ادا کیا۔

awaz

شہناز رحمان گوہاٹی ہائی کورٹ میں وکلا کے ساتھ

سنہ2017 میں شہناز رحمان کو ریاستی پولیس احتساب کمیشن، آسام کا رکن مقرر کیا گیا۔ ایک زمانہ میں جب گوہاٹی ہائی کورٹ کے سابق جج بی پی کٹاکی ریاستی پولیس احتساب کمیشن، آسام کے صدر تھے۔ شہناز رحمان نے ریاست آسام کے بیشتر اضلاع میں واقع پولیس اسٹیشنوں کا دورہ کیا اور قانونی بیداری کیمپوں کا انعقاد کیا۔

شہناز رحمان نے بین المذاہب شادی کی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ آسام میں مذہب کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا ہے۔ میں ایک کامیاب شادی شدہ زندگی گزار رہی ہیں کیونکہ یہ رواداری اورایک دوسرے کے عقائد اور طریقوں کے احترام پر مبنی تھی۔

شہناز رحمان کے شوہر منیش بورا کا سنہ 2009 میں انتقال ہوگیا۔ وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ شوہر اور بیوی کے درمیان مذہبی عقائد کے اختلافات کے باوجود تعلقات بہترین رہے کیوں کہ دونوں نے ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کیا تھا۔