نئی دہلی، 06 جولائی ( پریس ریلیز ) غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام دو روزہ بین الاقوامی سیمینار بعنوان پنڈت رتن ناتھ سرشار بشخص ، عہد اور تخلیقی جہات اختتام پذیرہوا سمینار کے دوسرے روز 6 جولائی کو چار ادبی اجلاس منعقد ہوئے۔ پہلے اجلاس کی صدارت بنارس ہندو یونیورسٹی کے سابق صدر شعبۂ اردو پروفیسر یعقوب یاور نے کی۔ صدارتی گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ایسے دور میں جب کتابوں سے رغبت کم ہوتی جارہی ہے مجھے یہ اجلاس اس اعتبار سے بہت اچھا لگا کہ اس میں سب نے تنقیدی بیانات پر انحصار کرنے کے بجائے متن پر توجہ صرف کی۔ اس اجلاس میں پروفیسر خالد اشرف کا مقالہ سرشار کا عہد، پروفیسر محمد کاظم کا مقالہ دین ناتھ سرشار کا ہمزاد نواب سید محمد آزاد اور ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی کا مقالہ کا منی اور ہندوستانی تہذیب: ایک جائزہ پیش کیا گیا۔ دوسر
اجلاس کی صدات سابق صدر شعبہ اردو جامعہ ملیہ
اسلامیہ پروفیسر خالد محمود نے کی۔ انھوں نے کہا - کہ سرشار کے ناول اردو کا ایسا سرمایہ ہے جس کو پڑھ کر زبان کی نزاکت کے ساتھ تہذیب کی - کے اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ ہمارا کوئی بڑا فنکشن نگار س نہیں ہے جو سرشار سے متاثر نہ ہو۔ اس اجلاس - میں ڈاکٹر خالد علوی نے سرشار کا طرز نگارش اور ان کے لغات، پروفیسر اسلم جمشید پوری نے رتن ناتھ نی سرشار کی ناول نگاری کا جائزہ پی کہاں کے خصوصی حوالے سے اور ڈاکٹر صادقہ نواب سحر نے فسانہ آزاد - الیٹ ن نیر آج کے عنوان سے مقالے پیش کیا
تیسرا اجلاس آن لائن ہوا جس کی صدارت ڈین فیکلٹی آف ن سوشل سائنس ایے۔ ایم۔ یو۔ پروفیسر شافع قدوائی نے کی۔ صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ خوجی کا کردار صرف ایک علاقے کو نہیں بلکہ پوری انسانی نفسیات کی عکاسی کرتا ہے۔ انسان جو نہیں ہوتا اس کی نقل کرتے وقت کتنا مضحکہ خیز بن جاتا ہے اس کی مثال خوجی ہے۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری، پروفیسر اصغر ندیم سید اور پروفیسر ناصر نیر نے مقالات پیش کے۔ چوتھے اور بیخری اجلاس کی صدارت ڈاکٹر
خالد علوی نے کی اپنی گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ سرشار نے صرف تخلیقی زبان کا استعمال ہی نہیں کیا بلکہ بہت سارے نئے جملے بھی گھڑے ہیں بعض تو انگریزی کی طرز پر خود بنائے ہیں اور بہت سارے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جن کے معنی لکھنوی لغات میں بھی نہیں فی : ملتے جن کو ان کے سیاق سے مجھنا پڑتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ غالب اسٹی ٹیوٹ کے اس سمینار کی وجہ سے اس طرح کے بہت سارے مسائل زیر بحث آئے جن پر کام کرنے کی ضرورت ۔ اس اجلاس میں پروفیسر یعقوب یاور نے رتن ناتھ سرشار کا تخلیقی ذہن پروفیسر غضنفر نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ، اور ڈاکٹر سفینہ نے پنڈت رتن ناتھ سرشار کے ناول کڑم دھم کا تجزیاتی مطالعہ کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔ دو دن کے سمینار میں علم و ادب کی اہم شخصیات ۔کثیر تعداد بھی شرکت کی۔ کے علاوہ طلبا نے شرکت کی