سید نصیرالدین وقار : میسورآرٹ کے ایک نایاب فنکار

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 15-09-2021
 سید نصیرالدین وقار
سید نصیرالدین وقار

 

 

محمد اکرم ،حیدرآباد

اگر آپ کے اندر کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہے تو آپ کسی بھی عمر میں کوئی بھی کام کرسکتے ہیں۔ایسا ہی جذبہ دکھانے والے ہیں ایک معمرانسان سید نصیرالدین وقار ہیں، جن کا تعلق ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد سے ہے۔

سید نصیر الدین وقار کی عمر 75 برس ہے اور ان کی ایک بینائی بھی چلی گئی ہے۔  ایک طرف جہاں وہ ضعیف ہیں وہیں ان کی ایک آنکھ بھی کام نہیں کرتی ہے، اس کے باوجود وہ اپنے فن کے جوہر کو دکھانے میں مصروف ہیں۔

نصیر الدین گذشتہ 7 برسوں سے لکڑی کے ٹکڑوں کی مدد سے اسلامی تہذیب و ثقافت کی نقاشی کرتے ہیں، جسے لوگ بہت پسند کرتے ہیں۔

نصیر الدین کی اس فن کاری کو تکنیکی زبان میں 'میسورآرٹ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ نصیر الدین نے اپنی معاشی زندگی کی شروعات برطانیہ سے کی، اس کے بعد وہ سعودی عرب منتقل ہوگئے، جہاں شاہ فیصل لائبریری میں بطور لائبریرین مسلسل تین دہائیوں تک کام کیا۔

awaz

وہاں سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ اپنے آبائی وطن حیدرآباد واپس لوٹ آئے اور پھر انھوں نے اپنے خالی اوقات کا استعمال اپنے شوق کو پورا کرنے میں لگا دیا۔

نصیرالدین جب سے ہندوستان واپس آئے وہ روزانہ لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی مدد سے نقاشی کرتے ہیں اور مختلف قسم کے ماڈل بناتے ہیں۔

اس کے لیے انھوں نےاپنے گھر کے ایک حصے کو میوزیم کی شکل دے دی ہے۔

 اس میوزیم میں انھوں نے بہت سے ماڈل و تصاویر ڈیزائن کئے ہیں، ان میں دو سو برس پرانے خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ کے تصاویر کی بھی نقاشی ہے۔

اس کے علاوہ انھوں نے صفوہ مروہ، مسجد نبوی، ٹیپو سلطان، لال قلعہ، تاج محل اور دیگر بہت سی عمارتوں کے ماڈل بنائے ہیں۔

نصیر الدین نے آواز دی وائس کو ایک انٹرویو کے ذیل میں بتایا کہ اس طرح کی نقاشی کو سب سے زیادہ فروغ ٹیپو سلطان نے دیا تھا۔ ٹیپوسلطان نے اس کے لیے بیرون ممالک سے فن کاروں کو بھی بلایا تھا۔

نصیر الدین نے دعویٰ کیا ہے کہ ہندوستان میں فی الوقت وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے حیدرآباد میں باضابطہ میسورآرٹ پر کام شروع کیا ہے۔

awaz

خیال رہے کہ لکڑی کے ٹکڑوں پر کی گئی نقاشی کو ہندوستان میں میسور آرٹ (Mysore Art ) کہتے ہیں، جب کہ یورپ میں اسے مارکیوٹا آرٹ(Marquita Art) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

نصیرالدین کچھ دنوں تک اپنے گھر کے اندر یہ کام کرتے رہے، اس کے بعد انھوں نے اس فن کو دوسروں کو بھی سکھانے کا فیصلہ کیا۔

نصیرالدین نے بتایا کہ  کئی برس قبل، یہ کام لڑکیوں کے درمیان، اسکول کی چھٹیوں میں شروع کیا تھا۔

لڑکیوں کے درمیان کام کرنے کا ان کا واحد مقصد یہ تھا کہ وہ خودکفیل بنیں۔

اس کے بعد لڑکوں نے بھی ان سے یہ فن سیکھنا شروع کیا۔

انھوں نے بتایا کہ اب تک 200 سو سے زائد لڑکے اور لڑکیاں ان سے تربیت لے چکے ہیں اور ان میں بہت سی لڑکیاں بیرون ممالک کے مختلف شہروں میں جاکر اچھے پیسے کما رہی ہیں۔

نصیرالدین کی خدمات کو اب ملکی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔ انہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ، راجیو گاندھی، صادقین، سفارتخانہ ایران وغیرہ جیسی جگہوں سےایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔

وہیں نصیرالدین کے فن کی نمائش ملک و بیرون ممالک میں ہو چکی ہے۔

نصیرالدین دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے یہ فن کسی سے بھی نہیں سیکھا ہے بلکہ ان کے شوق نے یہ سب کرنے کے لیےان میں جذبہ پیدا کیا۔

awaz

انھوں نے بتایا کہ ایک ماڈل تیار کرنے میں تقریباً ایک ہفتہ لگ جاتا ہے۔

ابتداً وہ تنہا ہی ماڈل بنایا کرتے تھے اب ان کے طلبا بھی ان کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں، نیز اس کے لیے وہ مشینوں کا بھی سہارا لیتے ہیں۔

نصیرالدین نے اپیل کی ہے کہ ان کی بنائی ہوئی چیزوں کو کوئی خرید لے تاکہ وہ ایک پلاٹ خرید کر وہاں منظم انداز میں میسور آرٹ پر کام کر سکیں۔ نیز وہ اس پلاٹ کو حیدرآباد کے فنکاروں کے لیے وقف بھی کرنا چاہتے ہیں۔

واضح ہو کہ وہ ذاتی خرچ پر یہ سب کام کر رہے ہیں، اس کے لیے انہیں کسی ادارے یا شخص کی جانب سے کوئی مالی تعاون نہیں ملا ہے۔

نصیرالدین نے آواز دی وائس کے توسط سے حیدرآباد کے رہنماوں سے ایک اسلامی نمائش کا منعقد کرنے کی بھی گذارش کی ہے۔

ضرورت ہے کہ اس طرح کے فنکاروں کی ستائش کی جائے اور ان کے فن کو اگلی نسلوں میں منتقل کرنے کی بھی کوشش کی جائے تاکہ یہ فن ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے۔