پونہ:مسجد اور مندر قومی یکجہتی کی بنی مثال

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 12-08-2021
پونہ:مسجد اور مندر قومی یکجہتی کی بنی مثال
پونہ:مسجد اور مندر قومی یکجہتی کی بنی مثال

 

 

 شاہ تاج خان، پونہ

ریاست مہاراشٹر کے ضلع پونہ کے گھوڑپری علاقے میں ایک ہی مقام پر مسجد اور مندر ہے جو کہ قومی یکجہتی اور مذہبی بھائی چارہ کے عظیم الشان مثال بنی ہوئی۔

مختلف نظریات اور مختلف عقائد رکھنے کے باوجود باہمی محبت اور بھائی چارہ ہمارے ملک کی پہچان ہے۔

ہندوستان کے لوگ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں مگر وہ دوسرے مذاہب کا احترام کرنا جانتے ہیں۔

ایسی ایک منفرد مثال پونہ کے گھوڑپری میں پائی جاتی ہے۔ یہاں کی مسجد اور مندر ایک ہی جگہ واقع ہے۔

جب کوئی انسان اہلسنت جامع مسجد کی کھڑکی سے باہر دیکھتا ہے تو سامنے کاشی وشویشور مندر دکھائی دیتا ہے۔
یہاں ایک اور خاص بات یہ ہے کہ جامع مسجد اور مندر کے درمیان صرف ایک دیوار ہے۔ وہیں مسجد کے دیوار کی تمام کھڑکیاں مندر کے صحن میں کھلتی ہیں۔

مندر کب بنا اورمسجد کب قائم ہوئی

حاجی عبدالقادر کہتے ہیں کہ یہ مسجد تقریباً125 سال پرانی ہے۔ اس کی حالت بہت خراب تھی۔ چنانچہ 1989 میں اسے از سر نوتعمیر کیا گیا۔ جب مسجد کی تعمیر کا کام چل رہا تھا ،اسی زمانے میں مندر بھی تعمیر کرایا گیا تھا۔ سنہ 1992 میں یہ مندر عقیدت مندوں کے لیے کھول دیا گیا۔

فرقہ وارانہ ہم آہنگی

مندر کے پجاری ہریش جوشی نے ایک انٹرویو کے ذیل میں کہا کہ یہاں آوازیں نہیں ٹکراتی، بلکہ ایک دوسرے کا احترام کرتی ہیں۔ جب اذان ہوتی ہے اور نماز کا وقت ہوتا ہے تو ہم آرتی کی آواز کو بہت کم رکھتے ہیں تاکہ نماز میں کوئی خلل نہ پڑے۔ ویسے یہ بہت کم ہوتا ہے جب نماز اور آرتی کا وقت ایک جیسا ہو۔

ہریش جوشی نے بتایا کہ ہمیں آج تک کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، کیونکہ ہم سب ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا مکمل احترام کرتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔

ہریش جوشی کے الفاظ کی تصدیق کرتے ہوئے مسجد کے امام مولانا عرفان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مسجد اور مندر فی الحال بند ہیں اور یہاں خاموشی ہے۔ لیکن عام دنوں میں بھی نماز کے وقت اسی طرح کی خاموشی ہوتی ہے۔ ہر کوئی اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ نماز میں کوئی خلل نہ پڑے۔

مسجد کے امام صاحب یہ بھی بتاتے ہیں کہ انہیں کبھی بھی مندر کے پجاری سے اپنی آواز کم کرنے کے لیے نہیں کہنا پڑا۔

اس موقع پر سنجے کاوڈے نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہمارا پورا گھوڑپری گاؤں عید ، دیوالی ، شیوارتری ، محرم اور گنپتی کا تہوار مل جل کر مناتا ہے۔

"آپ گنپتی تہوار کے دوران ہمارے گاؤں آئیے۔ آپ کو پنڈال میں شیرخورما کھانے کو ملے گا۔"

انھوں نے کہا کہ جب1992 میں لوگ مندر- مسجد کے نام پر لڑ رہے تھے ، تب ہم سب مل کر مسجد کے ساتھ یہ مندر بنا رہے تھے۔ جو ہمارے اتحاد اور بھائی چارے کی زندہ مثال ہے۔

خوبصورت پیغام

ہمارا ملک ہندوستان مختلف ثقافتوں ، مذاہب اور فرقوں کے سنگم کی طرح ہے۔ یہاں تمام مذاہب اور فرقوں کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں۔

سلیم خان کہتے ہیں کہ مذہب آپس میں دشمنی رکھنا نہیں سکھاتا۔ہر مذہب دوسرے مذاہب کا احترام کرنا سکھاتا ہے۔ اس کی ایک خوبصورت مثال ہمارے گاؤں کی یہ مندر مسجد ہے، جس کے درمیان کسی دیوار کے لیے جگہ نہیں ہے۔ اتحاد اور امن اتحاد اور امن ایک مضبوط معاشرے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

گھوڑپری گاؤں کے زاہد مرچنٹ نے ہندوستان کے مشہور شاعر بشیر بدر کے اس شعر کو پڑھتے ہوئے اپنا نقطہ نظر پیش کیا:

سات صندوقوں میں بھر کر اور نفرت کو دفن کردو نفرتیں

آج انسان کو محبت کی ضرورت ہے بہت ضرورت

آخر میں صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی مذہب کام نہیں توڑنا، بلکہ جوڑنا ہے۔ اپنے رب سے بھی اور زمین کے لوگوں سے بھی۔