پنڈت جی کی مسجد:جہاں ہندو،مسلم،سکھ،عیسائی دعاکے لئے آتے ہیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-04-2021
بدھ والی مسجد
بدھ والی مسجد

 

 

بدھ والی مسجدجو لوگوں کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کاسبق سکھاتی ہے

اس کی تعمیرپنڈت جی نے کرائی تھی۔

مسجد سے متصل ہے مندر

امام اور پجاری ہیں دوست

غوث سیوانی،نئی دہلی

مسجد،مندر، چرچ،گردوارے اور سینیگاگ کیاہیں؟ کیا سبھی ایک خالق ومالک کی جانب نہیں بلاتے ہیں؟ کیا سب کا مقصد انسانی وحدت کا پیغام نہیں ہے؟جب تمام انسانوں کا پیدا کرنے والاایک ہے تو پھر انسانوں کے تقسیم کیوں؟ شاید انھیں سوالوں کا جواب ہے بریلی کی بدھ والی مسجد۔ یہاں مذہب سے اوپراٹھ کرسبھوں کو آنے کی اجازت ہے۔ یہاں سبھی سرجھکاسکتے ہیں اور اپنے خالق کے سامنے اپنی ضرورتیں پیش کرسکتے ہیں۔

بندہ وصاحب ومحتاج غنی ایک ہوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

مسجدکے منتظم پنڈت راجندرکمار

پنڈت جی کی اولاد متولی

ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، اس کے باوجود ، ہندو مسلمانوں پر بحث ہورہی ہے،جوہماری نادانی کی منہ بولتی تصویرہے۔ایسے میں اتحادویکجہتی کی مثال ہےبریلی کی بدھ والی مسجد۔ اس مسجد کوتقریباً دوسوسال قبل پنڈت داسی رام نے تعمیر کرایا تھا ، تب سے اب تک صرف پنڈت داسی رام کی اولاد ہی اس مسجد کی دیکھ بھال کی ذمہ دار رہی ہے۔ ابتدامیں مسجد کے مقام پر چبوترہ تھا جسے انھوں نے عمارت کی شکل دیا۔ بدھ کے روز ہندو اور مسلمان سمیت تمام مذاہب کے لوگ باہمی بھائی چارے کے فروغ کی غرض سے بڑی تعداد میں اس مسجد میں پہنچتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسجد کو بدھ والی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جب اولاد کی منت پوری ہوئی

بودھ والی مسجد نیا ٹولا محلہ بریلی(اترپردیش) میں واقع ہے اور اس وقت پنڈت راجندر کمار اوران کے اہل خانہ اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ پنڈت راجندر کمار کا کہنا ہے کہ ان کے جدامجد پنڈت داسی رام کو کوئی اولاد نہیں تھی ، جس کے بعد انہوں نے منت مانی کہ اگر ان کے گھر بچے ہوئے تو وہ مسجد تعمیر کروائیںگے۔ ان کی دعا قبول ہوئی اور اللہ نے انھیں بچے کی خوشی عطافرمائی۔ اس کے بعد پنڈت جی نے اس مسجدکی عمارت کو تعمیرکروایا۔ راجندر کمار بتاتے ہیں کہ ان سے پہلے ان کے والد پنڈت دوارکا پرساد، اس مسجد کی دیکھ بھال کرتے تھے اور اب وہ اسے سنبھال رہے ہیں۔

امام مسجدحافظ جان عالم صمدانی

مسجد صبح پانچ بجے کھلتی ہے

پنڈت راجندر کمار نے بتایا کہ پتاجی کے بعد اب ان کا کنبہ اس مسجد کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ مسجد کی کنجی انھیں کے پاس رہتی ہے۔ راجندر کمار صبح کے وقت مسجد کا تالا کھول دیتے ہیں اور وہی اس کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مسجدکی ایک چابی امام صاحب کے پاس رہتی ہے اور دوسری میرے پاس ہوتی ہے۔ صبح کوٹھیک وقت پر آنکھ کھل جاتی ہے اور میں ہی مسجد کا دروازہ کھولتاہوں۔

بدھ کے روزہجوم

اگرچہ مسجد میں روزانہ نمازہوتی ہے ، لیکن بدھ کے روز نمازیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں دوسرے لوگ بھی مسجد آتے ہیں۔ ان میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو،سکھ وغیرہ بھی ہوتے ہیں اور اپنی منتیں، مرادیں اللہ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں۔

کیاکہتے ہیں پنڈت جی؟

مسجد کے منتظم پنڈت راجندرکمارکا کہنا ہےکہ ان کے جدامجدنے مسجدبنوائی تھی۔ تب ہندو،مسلمان میں تفریق نہیں تھی۔ انھوں نے مدرسے سے تعلیم پائی تھی اور ہندی کے بجائے اردولکھتے،پڑھتے اور بولتے تھے۔

خواتین بھی آتی ہیں مسجد

ہندوستان کی بہت کم مسجدوں میں خواتین آتی ہیں مگربدھ والی مسجد میں خواتین کی آمد کا سلسلہ بلاروک ٹوک جاری ہے۔ وہ یہاں نمازپڑھتی ہیں،دعائیں مانگتی ہیں۔ یہاں آنے والی خواتین میں سے ایک سعیدہ بی بھی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً سات، آٹھ سال سے یہاں آتی ہیں۔ انھوں نے اللہ سے جو بھی مانگاہے،دعاقبول ہوئی ہے۔

امام مسجدکیاکہتے ہیں؟

مسجدکے امام ہیں،حافظ جان عالم صمدانی جوگزشتہ کچھ برسوں سے یہاں امامت کرتے ہیں۔بتاتے ہیں کہ یہاں سبھی مذاہب کے لوگ آتے ہیں جن میں ہندواور سکھ بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجدکے برابر میں مندر بھی ہے،مگر سب کچھ خوشگوار طریقے سے چل رہا ہے۔پنڈت جی سے ہماری دوستی ہے اور یہاں کے معاملات قومی ایکتا کی مثال ہیں۔

سرداراندرجیت سنگھ بتاتے ہیں کہ وہ گردوارے کے گرنتھی ہیں،ان کا سکھ مت سے تعلق ہے مگر پھر بھی وہ مسجد میں آتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں۔