تبلیغی جماعت معاملے میں ہماراموقف درست: ارشدمدنی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-01-2021
سپریم کورٹ
سپریم کورٹ

 

کورونا وائرس کوتبلیغی مرکز نظام الدین سے جوڑ کر تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کی شبیہ کو داغدار کرنے اور ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیاکے خلاف جمعیۃ علمائے ہند کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کے حلف نامہ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ جمعیۃ نے یہ عرضی مولانا سید ارشدمدنی صدرجمعیۃ علماء ہند کی ہدایت پرداخل کی تھی۔ مولانا مدنی نے اس پر کہا کہ چیف جسٹس کے تبصرے سے ہماراموقف درست ثابت ہوا ہے۔

جمعیۃ کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی والی تین رکنی بینچ کے روبرو سماعت کے دوران عدالت نے ایک بار پھر مرکزی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ پر اعتراض کیا جس میں میں کہا گیا ہے کہ لائیو ٹی وی شو کو روکنے کا حکومت کے پاس کوئی میکانزم نہیں ہے نیز کوئی بھی پروگرام نشر ہونے سے قبل اسے روکا نہیں جاسکتا،البتہ پروگرام نشر ہونے کے بعد اگر شکایت درج کی جاتی ہے تواس کے خلاف کیبل ٹی وی نیٹ ورک قوانین کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔مرکزی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ لائیو ٹی وی شو اور ٹی وی پر بولنے سے روکنے کا مرکزی حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے جبکہ مرکزی حکومت نے چند ٹی وی چینلوں پر ایک ہفتہ تک خبریں اور پروگرام نشر کرنے کی پابندی لگائی تھی جس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ کچھ لوگوں کے ٹی وی چینل پر بھڑکاؤ بیان دینے کی وجہ سے فساد پھوٹ پڑتے ہیں اور جانی و مالی نقصانات ہوتے ہیں۔چیف جسٹس نے یہ تبصرہ بھی کیاکہ آج کوئی بھی کچھ بھی بولنے لگ جاتا ہے۔ چیف جسٹس کے اس بیان پر تشار مہتا نے کہا کہ یہ سچ ہے لیکن کچھ موقعوں پر جان بوجھ کر ایسی حرکت کی جاتی ہے کہ عوام مشتعل ہوں اور سڑکوں پر اتر آئیں۔چیف جسٹس نے سالیسٹر جنرل تشار مہتاسے کہاکو کہ ہم عوام کے بولنے پر اعتراض نہیں کررہے ہیں اور نہ ہی اس پر پابندی لگانا چاہتے ہیں لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ ٹی وی کیبل اور انٹرنیٹ پر ایسی خبریں نشر نہیں کرنا چاہئے جو جھوٹ پرمبنی ہوں اور جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو۔