دہلی میں بہت جلد کربلا یونیورسٹی کا قیام ہوگا: کلب جواد

Story by  ایم فریدی | Posted by  AVT | Date 27-02-2021
مولانا کلب جواد
مولانا کلب جواد

 

 

مولانا کلب جواد اپنے چچا مولانا کلب صادق کی تعلیمی کاوشوں سے خاصے متا ثر ہیں۔ انہوں نے وقف کی واگزار کرائی گئی اراضی پر یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپنی اس پہل کو وہ اسلام کی بنیادوں تعلیمات کی مرہون منت قرار دیتے ہیں- وہ پڑوسی کے حقوق اور اس کے حوالے سے ملحوظ رکھی جانے والی حساسیت کو اسلام کی اساس قرار دیتے ہیں۔ پیش خدمت ہے آواز دی وائس  ہندی کے ایڈیٹر ملک اصغر ہاشمی کے ساتھ ان کی گفتگو کی دوسری اورآخری قسط ۔

سوال: مولانا کلب صادق صاحب کا انتقال معاشرے کے لئے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ کیا تلافی ممکن ہے؟

مولانا کلب جواد : وہ میرے چچا تھے- انھیں مجھ سے بہتر کون جان سکے گا۔ انہوں نے ساری زندگی انسانیت کی خدمت میں گزاری۔ اس میں کوئی تفریق نہیں تھی کہ وہ مسلمان ہے یا وہ شیعہ ہے ۔ وہ سب کی مدد کرتے تھے ۔ وہ تعلیم کی لائن میں ہی رہے ۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ تعلیم ہر کسی تک پہونچ جائے چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ پوری زندگی خدمت میں گزاری ، جتنی خدمت انہوں نے کی ہے شاید ہی کسی نےکی ہو۔ اب ان جیسی شخصیت کا آنا تو مشکل ہے۔ اب صرف یہی ہو سکتا ہے کہ ہم ان کے مشن کو پورا کریں۔ ان کا مشن یہ ہے کہ پوری دنیا میں انسانیت کا پیغام پہنچے ، پوری دنیا میں تعلیم پہنچے۔ ان کے مطابق انسانیت کے دو دشمن ہیں ، ایک غربت اور دوسری جہالت ۔ اگر غربت اور جہالت ختم ہوجائیں تو یہ دنیا جنت بن جائے گی ۔ انہوں نے اسی مشن کو پوری دنیا میں پھیلآیا اور کام کیا۔ اس کے لئے اسکول بنائے ، لوگوں کو کاروبار کرنے کی ترغیب دی ، لوگوں سے کاروبار کرنے کو کہا تاکہ حالت بہتر ہوں ۔ دکانیں کھولیں ، چھوٹی چھوٹی دکانیں کھولیں ، ایسا نہیں ہے کہ فوری طور پرمال کی تعمیر کر نے لگ پڑو ، چھوٹی دکانیں کھولیں چھوٹی دکانیں بھی بڑی ہوجائیں گی اگر آپ ایمانداری سے محنت کریں گے۔ اس کے لئے انہوں نے بہت محنت کی- اب اسکی تلافی اسی طرح ممکن ہے کہ ہم ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں اور ان کی باتیں پوری دنیا میں پھیلائیں تاکہ ملک سے غربت اور جہالت کا خاتمہ ہو سکے ۔

سوال: مولانا  کلب صادق صاحب کو ایک اعتدال پسند مذہبی رہنما سمجھا جاتا تھا۔ وہ ہندو- مسلم اور شیعہ - سنی کے مابین ایک پل کی طرح تھے۔ سب نے ان کی باتوں پر یقین کیا۔ ان کے انتقال کے بعد کیا آپ خود کو انکے رول میں دیکھتے ہیں؟

مولانا کلب جواد : دیکھیں ، ہم سب کا مشن یہ بھی رہا ہے کہ ہمارے چاچا کے مشن کو آگے بڑھایا جائے ۔ میرے والد صاحب بھی بہت مقبول تھے۔ جب ایک حادثے میں ان کی موت ہوگئی ، تو اس کے جنازے میں ایک ملین افراد جمع ہوگئے ، ہر گھر سے لوگ شریک ہوئے۔ جب چاچا دنیا سے رخصت ہوئے تو ، ہر ذات اور مذہب کے لوگ جمع تھے اور بڑی تعداد میں لوگ ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے ۔ ہمارا مشن یہ بھی ہے کہ آپس میں محبت پیدا ہو، امن پیدا ہو ، آپس کے اختلافات کا خاتمہ ہو ، اسی کو ہم تہذیب کہتے ہیں۔ ہندوستان کی تہذیب بھی یہی ہے ، ہندوستان نے ہمیشہ اپنے دشمنوں کو گلے لگایا ، دوستی کا پیغام دیا۔ آج بھی دوستی کا پیغام دیا جارہا ہے۔ چین مسلسل تخریب کاری کر رہا ہے ، اس کے باوجود ہماری جانب سے کوئی غلط کام نہیں کیا گیا ہے ، بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پورے ہندوستان میں پاکستان کی وجہ سے دہشت گردی پھیلتی ہے ، لیکن پھر بھی بھارت مفاہمت کرنا چاہتا ہے خون خرابہ نہیں۔ یہ ہمارا مشن ہے اور یہ ہر مذہب کا مشن ہے۔ ہر مولوی کا ایک ہی مشن ہونا چاہئے۔

سوال: ان کے انتقال کے بعد ، مسلم پرسنل لا بورڈ میں شیعہ برادری کی کیا حیثیت ہوگی؟

مولانا  کلب جواد : میں بورڈ میں شیعہ نمائندے کی حیثیت میں ان کا بانی رکن بھی ہوں - اس کے علاوہ بہت سارے شیعہ علماء بھی اس میں موجود ہیں۔ میرے والد بانی نائب صدر تھے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ پانچ افراد نے مل کر تشکیل دیا تھا۔ جس میں مولانا طیب صاحب اور دیگر تھے- میرے والد بانی نائب صدر تھے۔ ان کے انتقال کے بعد میرے چچا ہوئے۔ اگرچہ فی الحال کوئی نائب صدر موجود نہیں ہے ، لیکن ممبر کافی شیعہ ہیں اور میں بھی وہاں ایک ممبر ہوں۔ ہم اپنے والد کے مشن کے ساتھ ہیں ، ہم نے ہمیشہ ان کی پالیسی پر عمل کیا ہے۔

سوال: آپ نے تنظیم پاسداران حسین کے نام سے سن 2000 میں ایک تنظیم قائم کی تھی ، اب اس کی کیا حیثیت ہے؟

مولانا  کلب جواد : اس وقت وقف کی جائیداد پر بہت زیادہ ناجائز قبضہ تھا ، اس وقت ہم نے نوجوانوں کی ایک تنظیم تشکیل دی تھی۔ جس کا کام تھا وقف کی حفاظت کرنا - اس کی مدد سے ہم نے بڑا امام باڑہ اور چھوٹا امام باڑہ خالی کروایا جو کہ وقف ہے۔ ساتھ ہی وقف کی ایک بہت بڑی اراضی ہے جو سکندرآباد میں ہے ، جہاں ہم ماتم کرتے ہیں ، اس پر غیر قانونی قبضہ تھا۔ اسے بھی ہم نے نوجوانوں کی مدد سے واگزار کرایا ۔ اسی طرح عالم نگر میں تقریبا 25 بیگھا زمین ہے ، اس انجمن کے ذریعہ ہم نے واگزار کروائی اور اسی طرح کی بہت سی چیزوں پر وہاں کام کیا اور وقف کو غیر قانونی قبضے سے آزاد کرایا۔ اب تنظیم اس طرح متحرک نہیں ہیں ، پھر بھی وہ نوجوان ہمارے ساتھ ہیں ۔ دہلی میں بھی ہم نے یہی کیا- ایک بہت بڑی درگاہ ہے درگاہِ صحابی مرکز ، اس پر بھی تقریبا دس ایکڑ میں غیر قانونی قبضہ تھا ، اللہ کا شکر ہے ہم نے اسے آزاد کرا لیا ہے۔ بہت قیمتی اراضی ہے ، جس کی قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ وہاں نوجوانوں کے لئے جلد ہی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ یونیورسٹی کا نام کربلا یونیورسٹی ہوگا۔ یہ ایک بہت بڑی یونیورسٹی ہوگی، انشاء اللہ جلد ہی شروع ہوگی۔ ہر مذہب کے لوگ جائیں گے اور ہر ایک یونیورسٹی سے مستفید ہوگا۔

سوال: یونیورسٹی کے بارے میں کچھ بتائیں۔

مولانا  کلب جواد: یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے۔ اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ ایک بہت بڑی عمارت تعمیر کی جائے گی۔ کئی منزلہ عمارت ہوگی۔ کسی بھی مذہب کا فرد اس میں داخلہ لے سکتا ہے- ہم کوشش کریں گے کہ ہماری شیعہ برادری کے درمیان بھی علم پھیلے ، مسلمانوں اور دوسرے مذاہب میں بھی پھیلے۔ یونیورسٹی کے تین سال میں کھلنے کا امکان ہے۔

سوال:یونیورسٹی میں شیعہ برادری کے بارے میں یا خاص طور پر اسلام کے بارے میں کچھ خاص باتیں ہوں گی؟

مولانا  کلب جواد: اس میں دینی چیزیں بھی ہوں گی۔ دین کی تربیت بھی ہوگی۔ آج کی جدید تعلیم بھی نوجوانوں کو پڑھائی جائے گی ۔ ہمارے چھٹے امام جعفر صادق نے 1350 سال پہلے مدینہ میں ایک یونیورسٹی قائم کی تھی۔ اس میں قرآن بھی پڑھایا جاتا تھا ، حدیث بھی پڑھائی جاتی تھی۔ اور آپ کو حیرت ہوگی کہ وہاں کیمسٹری بھی پڑھائی جاتی تھی ، جغرافیہ کا مطالعہ بھی کیا جاتا تھا۔ فلکیات اور ارضیات سب کا مطالعہ کیا جاتا تھا۔ وہ بھی 1350 سال پہلے ۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم ان کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے قوم کو جدید اور دینی تعلیم دونوں سے آراستہ کریں۔

سوال:جناب ، آپ اپنی برادری کے لئے کیا کر رہے ہیں؟

مولانا  کلب جواد: دیکھئے ! ہمارے ذرائع بہت محدود ہیں ، بہت کم ہیں۔ ہمارا ایک ادارہ ہے نور ہدایت ، ایک دوسرا ادارہ ہے امام الدائمہ ٹرسٹ ۔ ایک اورادارہ ہے جس کے ذریعے لوگوں کی تعلیم میں مدد کی جاتی ہے ۔ اگرکسی بچہ کا اندراج نہیں ہوتا ہے تو ہم داخلے میں مدد کرتے ہیں۔ طبی سہولیات بھی مہیا کراتے ہیں۔ بیمارلوگوں کی بھی مدد کرتے ہیں۔ اگر کسی کے دانت ٹوٹ گئے تو دوا دلواتے ہیں۔ اگر کسی کا مکان ٹوٹ گیا ہے تو ہم اسے بنواتے ہیں۔ تعلیم اور صحت دونوں ہی بہت اہم ہیں۔ غریب لوگ ، ہم بڑے اسپتال میں نہیں جاسکتے ، لہذا ہم ان کی مدد کرتے ہیں۔ ہم نے کارڈ سسٹم رکھا ہوا ہے ، ہم نے اسپتالوں کے ساتھ معاہدہ کیا ہوا ہے اور اس طرح غریبوں کو 50 فیصد ، 40 فیصد رعایت دی جاتی ہے۔ اس طرح ہم اپنی طرف سے غریبوں کی مدد کرتے ہیں۔ کوئی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو ہم اس مذہب کے لوگوں کی مدد کے لئے تیار ہیں۔

سوال: آپ کہتے ہیں کہ قوم کو بھیک نہیں مانگنی چاہیے، آپ ان کے لئے کس حق کی بات کرتے ہیں؟

مولانا کلب جواد : ہاں ، ہم نے کہا تھا کہ اگر آپ نوکریوں میں ریزرویشن دے رہے ہیں تو شیعہ برادری کو بھی اس کا فائدہ ملنا چاہئے۔ اگر مسلمانوں کو ریزرویشن ملتا ہے تو شیعہ برادری کو بھی اس میں حصہ ملنا چاہئے کیونکہ مسلمانوں میں انکا تناسب 20 فیصد ہے- ہمیں محتاج افراد کو ڈھونڈنا ہے اور ان تک پہنچنا بھی ہے ۔ ہم نے اوقاف کے حوالے سے ایک تحریک چلائی تھی۔ اگر اوقاف کا نظم صحیح طریقے سے چلا جاتا ہے تو ہماری برادری کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ شیعہ اور سنی دونوں خود کفیل ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ مسلمانوں کو ریزرویشن دے رہے ہیں تو شیعہ برادری بھی 20 فیصد اس کی حصہ دار ہے۔

سوال:اسلام پر ہونے والی ہر تنقید کو اسلامو فوبیا قرار دینا کتنا درست ہے؟

مولانا کلب جواد : اسلام بہت اعتدال پسند دین ہے۔ اس کے ماننے والوں پر بہت ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مذہب کی تعلیم تو یہ ہے کہ اگر کسی نے ایک کتے کی بھی جان بچا لی تو رسول اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے اوپر جنت واجب ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں الله فرماتے ہیں کہ تم بہترین امت ہو کیونکہ تمہیں دوسروں کی مدد کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ بات صرف دوسرے کو نقصان نہ پہنچانے کی ہی نہیں ہے ، بلکہ اسلام مزید آگے بڑھ کر کہتا ہے کہ تم دوسروں کی خدمت کے لئے پیدا ہوئے ہو۔ اگر آپ کا پڑوسی ہندو ہے اور اسے کھانے کی ضرورت ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اس کی مدد کریں۔ اگر وہ بیمار ہے یا کسی مشکل میں ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی مدد کریں۔ مدد یہاں تک کہ اگر آج آپ کو کچھ سمجھ نہیں آتا ہے تو کم از کم اتنا تو کریں کہ اتنی اونچی دیوار نہ بنائیں کہ سورج کی روشنی رک جائے۔ اتنا اونچا گھر نہ بنائیں کہ پڑوسی کی ہوا بند ہو جائے۔

اگرآپ کسی اچھی چیز کو پکائیں اور اس کی خوشبو پڑوسی کو جا رہی ہے تو آپ کا فرض ہے کہ پکا ہوا کھانا پڑوسی کوبھی دیں ۔ اگر آپ بریانی یا پلاؤ یا کوئی مرغن غذا بنا رہے ہیں اور ہم سایہ غریب ہے تو اس کے بچے اپنے والد سے بھی اس کا سوال کریں گے۔ لہذا آپ کا فرض ہے کہ آپ اپنے پڑوسی کو بھی اپنے کھانے میں شریک کریں ۔ تاکہ اگر اس کا بچہ مطالبہ کرے اور غریب ہونے کی وجہ سے والد مطالبہ پورا نہیں کرسکےتو بچے کی دل آزاری نہ ہو۔ یہ اسلام ہے ، اگر آپ اسلام کی تربیت پر عمل پیرا ہیں ، تو مسلمانوں کو دیکھ کر لوگ سمجھ جائیں گے کہ اصل اسلام کیا ہے ۔

آج اگر کوئی ایک منزلہ مکان بناتا ہے تو لوگ جواب میں چارمنزلہ مکانات بناتے ہیں۔ اسلام میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ اسلام کا کہنا ہے کہ آپ نہ تو ہوا روک سکتے ہیں اور نہ ہی سورج کی روشنی اور نہ ہی کسی کو پریشان کرسکتے ہیں۔ اسلام نے پڑوسی کو اتنا حق دیا ہے کہ کوئی اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ ساتھ ہی پڑوسی ہونے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ ہمسایہ مسلمان ہی ہو۔ وہ کسی بھی مذہب کا ہوسکتا ہے۔ یہ ہے اصل اسلام۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی کو مار ڈالو اور کہو کہ ہم جہادی ہیں یا ہم سچے مسلمان ہیں۔ ایسا کرنے والے تو اسلام کے دشمن ہیں۔

سوال: مدارس کی جدید کاری کے لئے بھی کوششیں کی جارہی ہیں ، اس بارے میں آپ کی کیا راے ہے؟ کیا مدرسوں کو جدید تعلیمی نظام سے جوڑنا مناسب ہوگا؟

مولانا کلب جواد : دیکھو، جدید تعلم تو ہونی ہی چاہیے ، میں نے پہلے ہی عرض کیا کہ اسلام میں اس کی ایک تاریخ ہے۔ چھٹے امام جعفر صادق نے مدینہ میں ایک یونیورسٹی قائم کی تھی اور اسی ادارے نے پوری دنیا میں جدید تعلیم کو عام کیا۔ وہاں جغرافیہ ، فلکیات، ارضیات سمیت جدید تعلیم کے تمام علوم پڑھائے جاتے تھے ۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم بھی ضروری ہے ، ورنہ مسلمان دنیا سے منقطع ہوجائے گا۔ اسی طرح دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی ضروری ہے۔