مسلمانوں کو اپنے احساسات کے تئیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 26-08-2021
ہندوستانی مسلمانوں کے لئے نازک لمحہ
ہندوستانی مسلمانوں کے لئے نازک لمحہ

 

 

عاطر خان، نئی دہلی

جب  افغانستان پرطالبان کا قبضہ ہوا تو اس کے بعد مسلمانوں کے ایک طبقے میں یہ احساس پایا گیا کہ مسلم جانبازوں نےعالمی طاقتوں کے اتحاد پرغلبہ حاصل کر لیاہے۔

مسلمانوں کے اس طبقے کی یہ سوچ کسی بھی معنی سے مثبت نہیں ،طالبان کی فتح پر خوشی کے کسی بھی طرح کے اظہارکا غلط پیغام ہی جائے گا۔جس سے کہیں نہ کہیں مسلمانوں کی ساکھ مسخ ہوگی ،یہ غلط پیغام جائے گا کہ مسلمان ایک پرتشدد طرز زندگی کو نظر انداز یا معاف کر رہے ہیں۔

 یہ کیوں غلط ہے ،آئیے اس کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کیا کوئی مسلمان اپنے بچوں کو طالبان کی سرپرستی میں بھیجنا چاہے گا؟

 تمام سمجھدار لوگ یک زبان ہو کر”نہیں“کہیں گے۔ چنانچہ یہ خوش فہمی کہ طالبان نے عالمی سپر پاورز کو سبق سکھایا ہے، خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مفید نہیں بلکہ انتہائی نقصان دہ ہے۔

کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ امریکہ نے عراق اور افغانستان میں زیادتیاں کی تھیں لیکن جس چیز کو ان کی شکست سمجھا جا رہا ہے اس کا جشن منانے کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلمان طالبان کے طرز زندگی کو پسند یا تسلیم کر رہے ہیں۔جبکہ سن 90 کی دہائی کے طالبان کے تشدد کی خوفناک یادیں ناقابل فراموش اور خوفناک ہیں۔

آج ہم افغانستان میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں؛ وہ طالبان ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ 90 کی دہائی کے طالبان نہیں ہیں۔کیونکہ وہ ایک نئی شکل میں نمودار ہوئے ہیں۔

وہ اپنی ذہنیت میں جامع اور ترقی پسند ہیں۔ لہٰذا کسی بد گمانی کی ضرورت نہیں ہے یا تو طالبان تبدیل نہیں ہو سکتے یا انہیں اپنے طریقے ٹھیک کرنے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے۔ہم صرف یہ امید کر سکتے تھے کہ وہ بدل جائیں گےاورمہذب ہوجائیں گے۔

چنانچہ جب طالبان دوسری بار آئے تو امریکہ مخالف جذبات اتنے شدید تھے کہ مسلمان بھول گئے کہ افغان مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی انتہائی تکلیف میں ہے اور اگر وہ افغانستان میں رہے توان کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔

کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ان جذبات کی وجہ سے ہوا جو گیارہ ستمبر(9/11) کے حملوں کے بعد ہونے والے واقعات کے بعد پیدا ہو رہے تھے۔

اس وقت امریکہ نے اسلام مخالف پروپیگنڈا کیا تھا اورعراق اور افغانستان پرحملہ کیا تھا۔ دونوں ممالک کو ان فوجیوں کی کارروائی کے ذریعہ بے پناہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔

امریکہ نے اسلام مخالف بیانیہ تشکیل دیا جو قابو سے باہر ہو گیا اور بالآخر عام طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

امریکی اور نیٹو افواج نے عراق اور افغانستان پر حملہ کیا۔اسلام مخالف پروپیگنڈا خطرناک شکل میں تمام حدوں کوپارکرتا چلا گیا ،مسلم مخالف پروپیگنڈا بن گیا اور پوری مسلم کمیونٹی کو بری طرح متاثر کرنا شروع کر دیا۔ یہ اسلاموفوبیا میں تبدیل ہو گیا اس نے مزید دہشت گردی کو جنم دیا۔

امریکی پروپیگنڈے کا مقصد عام طور پر مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنانا تھا لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زیادہ تر مسلمانوں کو کسی نہ کسی طرح تکلیف اٹھانی پڑی۔

انہیں ہوائی اڈوں یا کسی اور جگہ پر شک کی نظر سے دیکھا گیا، انہوں نے اپنی شناخت ظاہر کی۔چنانچہ طالبان کی فتح کے بعد جشن منانا دراصل ماضی کے تمام مصائب کا مظہر ہے۔

اگرچہ امریکہ کو ان کے ماضی کے اقدامات پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تاہم مسلمانوں کو امریکی تجربے سے سبق سیکھنا چاہیے۔

طالبان کے متشددانہ کارروائی یا عمل کی تعریف کرکے مسلمان نادانستہ طور پر ایک اور خطرناک بیانیہ تخلیق کر رہے ہیں جس سے ان کی شبیہ کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

طالبان کی فتح کی خوشی سے سخت گیر گروپ کو ایک جوابی بیانیہ تخلیق کرنے کا موقع مل جائے گا کہ مسلمان طالبان کے حامی ہیں اور افغانستان میں انسانی مصائب سے غافل ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلمان تشدد کو منظور کرتے ہیں اور ان پر پرامن بقائے باہمی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔

ہندوستان افغان پناہ گزینوں پر بہت مہربان رہا ہے کیونکہ وہ ای ویزا کی سہولیات کا استعمال کرتے ہوئے یہاں پہنچ رہے ہیں۔ان کے مذہب سے قطع نظر انہیں ہندوستان میں پناہ فراہم کی جارہی ہے۔

طالبان کے بارے میں ہندوستان کا نقطہ نظر خارجہ پالیسی سازوں پر چھوڑ دیا جانا چاہئے۔یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا فیصلہ سڑکوں، ڈرائنگ رومز یا ٹی وی نیوز چینلز پر کیا جائے۔

ہندوستانی مسلمانوں کو واضح طور پر کہنا چاہئے کہ طالبان کے بارے میں ان کا موقف ہندوستانی حکومت کے موقف کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

نئی حکومت کے چنگل سے نکلنے کی سخت کوشش کرنے والے بچوں، خواتین اور بوڑھے افراد کے دل دہلا دینے والے مناظر نے نہ صرف یہاں کے مسلمانوں بلکہ تمام ہندوستانیوں کو یکساں طور پر پریشان کر دیا ہے۔کوئی بھی اس قدر بڑے پیمانے پر انسانی مصائب کے بارے میں بے حس نہیں رہ سکتا؛ بہتر ہے کہ اپنی زبان کو لگام دی جائے۔