مسلم رہنما مشترکہ حکمت عملی بنائیں، وزیر اعظم سے ملاقات کریں : دانشوروں کی رائے

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-03-2022
مسلم رہنما مشترکہ حکمت عملی بنائیں، وزیر اعظم سے ملاقات کریں : دانشوروں کی رائے
مسلم رہنما مشترکہ حکمت عملی بنائیں، وزیر اعظم سے ملاقات کریں : دانشوروں کی رائے

 

 

آواز دی وائس :منصور الدین فریدی

ملک میں مسلمانوں کے لیے موجودہ ماحول پیچیدگیاں پیدا کررہا ہے،مسلمان پریشان ہیں ،زندگی متاثر ہورہی ہے،سڑک سے گھر تک حالات کا اثر ہے ،کوئی کاروباری مسائل کے سبب ہراساں ہے تو کوئی بنیادی حقوق کی بنا پر ۔ایسے میں بہتر ہوگا کہ مسلمانوں کے رہنما،بڑی تنظیموں اور اداروں کے سربراہان یا قائد ین،اس سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کریں اور انہیں زمینی حالات سے واقف کرائیں ۔یہ طریقہ سڑکوں پر احتجاج اور ٹکراو سے کہیں بہتر ہوگا اور اثر دار بھی۔

ان خیالات کا اظہارکیا ہے ممتاز مسلم دانشوروں نے کیا ہے جنہوں نے کرناٹک میں حجاب سے جاترا میں مسلمانوں کو دکانیں نہ لگانے دینے کے تنازعہ تک کے واقعات اور مسلمانوں کی پریشانیوں کو حکمت کے تحت دور کرنے کی وکالت کی ہے۔

دراصل ابھی کرناٹک میں حجاب تنازعہ گرم ہی ہے کہ اب شیموگہ کے تاریخی کوٹے مریکمبا جاترا کی انتظامی کمیٹی نےاس جاترا میں کسی بھی مسلم کاروباری کواسٹالس لگانے کی اجازت نہیں دی ،جس کا جواز یہ بتایا گیا ہے کہ مندر انتظامیہ نے دو سال قبل ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ مندر کے احاطے میں کسی غیر ہندو کا داخلہ ممنوع رہے گا ،اب اس کو لاگو کردیا گیا ہے۔حجاب سے سماجی بائیکاٹ تک کا ماحول جاب پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ حجاب کے بعد اور بھی مسائل سامنے آرہے ہیں جن سے مسلمانوں میں بے چینی اور پریشانی فطری ہے۔

 ممتاز اسلامی اسکالرپدم شری پروفیسر اختر الواسع کے مطابق موجودہ حالات میں ملک میں جو ہورہا ہے اس میں اکثریت کا ایک چھوٹا سا طبقہ ملوث ہے ،بلاشبہ اکثریت اس سوچ کے خلاف ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ طبقہ خاموش ہے۔مسلمان صبر کررہے ہیں ،حالات کو دیکھ رہے ہیں ۔کہیں ہولی پر مساجد میں نماز جمعہ کو روکا جارہا ہے تو کہیں مندر کے میلے میں مسلمانوں کو دکانیں لگانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔

اب وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم رہنماوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا ۔ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کرنی ہوگی ۔وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے بات کرنی ہوگی ۔ان کا سیاسی نظریہ مختلف ہوسکتا ہے لیکن وہ ملک کے اہم عہدوں پر ہیں ۔

وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو ہی اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ امن وامان برقرار رہے ،کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں ،کسی مذہب کی توہن نہ ہو۔

پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ مزید کہا کہ مسلم لیڈران کو وزیر اعظم سے ملاقات کرکے اس سلسلے میں ان کا موقف معلوم کرنا چاہیے۔یہ معلوم کرنا چاہیے کہ اس سلسلے میں وہ کیا اقدام کرسکتے ہیں کیونکہ جو کچھ ملک میں ہورہا ہے وہ ملک کے وقار اور معیار متاثر کررہا ہے۔

پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک جانب دھرم سنسد کے نام پر مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کرنے والے کو ضمانت مل جاتی ہے ،حالانکہ وہ سینہ تان کر اپنی بات پر اٹل رہا  لیکن دوسری جانب نوجوان طلبا لیڈر عمر خالد کو ضمانت نہیں مل رہی ہے۔

اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ مسلم رہنما ملک کے وزیر اعظم سے بات کریں کیونکہ جو لوگ  اس قسم کی سرگرمیوں میں شامل ہیں وہ اب نہ صرف دستوربلکہ  ترنگا  کے بھی خلاف ہیں۔ جو کہ ملک کی جمہوری قدروں اور روح کے خلاف ہے۔

 دہلی کی تاریخی فتحپوری مسجد کے امام  اور دانشور ڈاکٹر مولانا مفتی محمد مکرم احمد نے موجودہ حالات پر کہا کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ ملک کا مسئلہ ہے۔یہ نفرت اور تعصب بہت خطرناک ہے۔بات صرف کرناٹک کی نہیں بلکہ اس کا اثر پورے ملک میں ہورہا ہے۔

مفتی مکرم نے کہا کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہی دنیا میں اس کی شان ہے۔ عزت ہے اور احترام کا سبب ہے۔ اس لیے ایسے واقعات کو چھوٹے سیاسی فائدے کے لیے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔جو بھی لوگ ایسا کررہے ہیں وہ نا سمجھ ہیں ،ان حالات میں بڑے لیڈران کو آگے آنا ہوگا۔

مولانا مفتی مکرم نے کہا کہ بات اس سلسلے میں وزیر اعظم سے ملاقات کی کریں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہ اگر دنیا میں مقبول ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ملک کے ایک سو چالیس کروڑ عوام کے وزیر اعظم ہیں۔ وہ صرف ہندووں کے وزیر اعظم نہیں ہیں۔

حالانکہ وزیر اعظم کی حیثیت سے انہیں سب کچھ معلوم ہی ہوگا لیکن مسلمانوں کے اہم لیڈران اور بڑی تنظیموں کے قائدین اگر ایسی کوئی پہل کرتے ہیں تو ایک مثبت قدم مانا جائے گا۔

ممتاز دانشور ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد نے کہا کہ ایسے واقعات پر بڑی حکمت سے کام کرنا ہوگا، ہمیں فوری ردعمل سے بچنا ہوگا ،اگر کوئی طبقہ یا گروہ پریشان کررہا ہے تو اس سے ٹکرانے کے بجائے ایسے لوگوں سے رابطہ کرنا ہوگا جن کا ان عناصر پر اثر ہو۔نہ کہ مظاہرہ یا احتجاج کیا جائے۔ میرا ماننا ہے کہ مسئلہ کا حل تلاش کیا جانا چاہیے اس کو طول دینا دانشمندی ہے۔اس کا آسان راستہ مذاکرات ہے۔

ڈاکٹر خواجہ افتخار نے کہا کہ ہم ٹکراو سے بچیں تو اسی میں بہتری ہے۔اس کے لیے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا اور سمجھانا بھی ہوگا کہ لڑ بھڑ کر زندگی نہیں گزار سکتے ۔ہمیں ساتھ ہی رہنا ہے۔ ایک بات تو سمجھ لیں کہ اگر ایک فریق جارح ہوتو دوسرے کو اعتدال پر رہنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے مسائل پر ہم اگر ڈائیلاگ کرتے ہیں تو اس کا فائدہ ہوگا۔ مسلمان لیڈر اگر اس مسئلے پر وزیر اعظم مودی سے ملاقات کرتے ہیں تو اچھی پہل ہوگی ۔ہر مسئلہ حل مانگتا ہے اور اس کا بہترین طریقہ مذاکرات ہے۔

انہوں نے  حجاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم کو اس خوف سے باہر آنا ہوگا کہ ہماری شناخت خطرے میں ہے،ایسا جب ہوتا ہے جب ہم خودکمزور ہوں۔اس ملک میں جین اور بدھسٹ برائے نام ہیں لیکن کسی کی شناخت اور تہذیب خطرے میں نہیں ہے لیکن ہم 25 کروڑ ہیں  پھر بھی ہماری تہذیب خطرے میں ہے۔میرا ماننا ہے کہ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب اس کو ماننے والے اس سے دور ہوجاتے ہیں۔اس کی قدر کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

حجاب کا معاملہ ایک ادارے کا تھا اس کو اس سطح پر حل کرنا چاہیے تھا،اس نے فرقہ وارانہ رنگ لے لیا۔اس کو سماجی حوالے سے دیکھتا ہوں۔ ہم کو ہر مسئلہ کو طول نہیں دینا چاہیے۔ اس لیے یہ بہتر ہوگا کہ ان حالات پر وزیر اعظم سے بات کی جائے۔

انٹر نیشنل صوفی کارواں کے سربراہ مفتی منظور ضیائی کہتے ہیں کہ نفرت کی ہوائیں بہت تیز چل رہی ہیں،عروج پر ہے نفرت۔کرناٹک کی حکومت کو ایسے معاملات میں مداخلت کرنی چاہیے۔ملک کے ضروری ہے کہ ہر طبقہ میں بھید بھاو کا خاتمہ کیا جائے۔

جمہوں نے کہا کہ ہمیں سوچنا ہوگا کہ یہ کیوں ہورہا ہے اور اس کا کیا علاج ہے۔ہمیں ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنا ہوگا ۔اس میل ملاپ کو برقرار رکھنا ہوگا جس کے لیے ہندوستان کو سارے جہاں سے اچھا کہا جاتا ہے۔

مفتی ضیائی کا کہنا ہے کہ میرا مشورہ ہے کہ مسلمان اس قسم کے واقعات پر فوری طور پر ردعمل ظاہر نہ کریں۔پہلے ہر پہلو کا جائزہ لیں کہ کہیں خامی یا کمزوری اپنی نہ ہو۔ 

انہوں نےکہا کہ اگر مسلم لیڈران ایسے مسائل پر وزیر اعظم مودی سے ملاقات کرتے ہیں تو ایک اچھی پہل ہوگی ۔وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں ،انہیں اس بے چینی اور پریشانی سے آگاہ کرنا زیادہ ضروری ہے۔ براہ راست ڈائیلاگ اثر دار ثابت ہوتے ہیں ۔

سیکرٹری شعبہ اسلامی سوسائٹی جماعت اسلامی ہند اور ممتاز دانشور ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اس معاملہ پر کہا کہ اس وقت مسلمانوں میں اعتماد پیدا کرنا بہت ضروری ہے،ان حالات کو ہمیں آزمائش کے طور پر لینا ہوگا ۔صبر کرنا ہوگا اور کسی بھی معاملہ پر فوری ردعمل سے پرہیز کرنا ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ اب مسلم اداروں اور تنظیموں کو الگ الگ پلیٹ فارم سے آواز اٹھانے کے بجائے متحد ہوکر بیٹھنا ہوگا کیونکہ تنہا آواز اٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اس آواز کو کوئی نہیں سنے گا۔اپنا موقف متحد طور پر پیش کریں ۔یہی نہیں مسلمانوں کو اکثریت میں اپنے ہپم خیال لوگوں کو تلاش کرنا ہوگا ،ان سے بھی بات کرنی ہوگی تاکہ وہ بھی آواز اٹھا سکیں ،یا اس سلسلے میں اٹھ رہی آواز میں ساتھ دے سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں یہ بھی فیصلہ کرنا چاہیے کہ کونسا معاملہ عدالت میں لیجانا چاہیے اور کونسا نہیں ۔کیونکہ کچھ معاملات عدالت سے باہر حل کرنے میں ہی فائدہ ہے۔

ڈاکٹر رضی الااسلام نے مزید کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے خود کو مذہبی معاملات تک محدود رکھا ہے ،مسلمانوں کے دیگر مسائل پر آواز اٹھانے سے گریز کیا ہے ۔اس لیے مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنانا ہوگا۔مشترکہ طور پر آواز بلند کرنی ہوگی ۔

انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حالات میں اگر مسلم قیادت متحد ہوکر حکومت سے بات کرتی ہے اور مسلم لیڈران کا مشترکہ وفد وزیر اعظم سے ملاقات کرتا ہے تو یہ ایک مثبت پہل ہوگی ۔ایسی ملاقات اور بات چیت کا اثر ہوتا ہے ۔

اس میں اہم یہ بھی ہے کہ ایسی کسی بھی ملاقات سے قبل اور بعد تمام بات چیت کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ کسی بد گمانی کی گنجائش نہ رہے۔ ڈائیلاگ سے بہتر کوئی راستہ نہیں ۔اس پر عمل کرنا سب سے بہتر ہوگا کیونکہ مسئلہ کا حل میز پر ہی نکالا جاتا ہے۔