ممبئی حملہ کی برسی : قصاب سے ہیڈلی تک کی کہانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-11-2021
ممبئی حملہ : ممبئی حملہ : قصاب سے ہیڈلی تک
ممبئی حملہ : ممبئی حملہ : قصاب سے ہیڈلی تک

 

 

آواز دی وائس : نئی دہلی 

ہندوستان کی سرزمین پر یوں تو سرحد پار سے یوں تو متعدد دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں لیکن ممبئی حملہ ایک ایسا واقعہ ہے جس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ایک جانب جہاں دہشت گردوں کا خوفناک چہرہ سامنے آیا وہیں پاکستان کا ہاتھ بھت عیاں ہوا۔ جس سرزمین سے ممبئی حملے کا پلان انجام دیا گیا تھا۔

آج ایک سال اور گزر گیا،ممبئی حملے کی ایک اور برسی26/11 طور پر منائی جارہی ہے۔ اس موقع پر بہت سی یادیں تازہ ہوتی ہیں اور بہت سی قربانیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔قصور واروں کا ذکر آتا ہے تو یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ کس کس کو سزا ملی۔ کون کون انجام تک پہنچا اور کون ابتک شکنجے سے باہر ہے۔ 

ممبئی حملے میں سب سے بڑا نام ’قصاب‘ کا تھا جس کو زندہ پکڑا گیا تھا،ملک کے قانون کے تحت کارروائی کی گئی اور آخر میں پھانسی کا مقدار بنا۔ لیکن یہ کہانی قصاب کے ساتھ بند نہیں ہوتی ہے ۔کہانی ابھی باقی ہے۔

سب جانتے ہیں پاکستان کا اپنا کردار تھا جو دنیا کے سامنے بالکل واضح ہے کہ دہشت گرد اس کی سرزمین کو استعمال کرتے رہے ،موت کا کھیل کھیلتے رہے لیکن پاکستان اپنا دامن ہی چھاڑتا رہا ،جتنی محنت دامن جھاڑنے میں صرف کی اتنی اگر دہشت گردوں کی گردن پکڑنے کے لیے کی ہوتی تو شاید ناپاک سازش کا حصہ نہ بنتا مگر ایسا ممکن نہیں تھا۔

اس حملے میں ہندوستان نے کئی اہم اور سینئر پولیس افسران کو گنوایا،شہریوں کی ہلاکت ہوئی اور ایک ایسا زخم لگا جس کو قصاب کو پھانسی کے باوجود ابتک بھرا نہیں جاسکا ہے کیونکہ پردے کے پیچھے کے کھلاڑی خواہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری سامنے نہیں آسکے ہیں ۔پاکستان کی حکومت سے فوج اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی تک سب ایک حمام میں ننگے ہیں ۔حد تو یہ ہوئی کہ پاکستان نے قصاب کو پاکستانی ماننے سے بھی انکار کردیا تھا۔ 

لیکن اس سازش کے بڑے دماغوں میں ایک تھا ڈیوڈ کولمین ہیڈلی ۔۔ ایک پراسرار نام اور چہرہ۔جس کو پاکستان سے زیادہ امریکہ نے اپنے دامن میں چھپا کر رکھا ہے۔ قانون سے دور اور حوالگی دور۔دراصل ممبئی حملوں کے مجرموں میں ایک ہے ہیڈلی لیکن آج بھی ایک معمہ ہے۔

کون ہے وہ ؟

پاکستانی نژاد امریکی شہری ہےوہ ۔ اصل نام داؤد گیلانی ممبئ حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کے الزام میں اس کو گرفتار کیا گیا۔ ریڈیو پاکستان کے ایک معروف ڈائریکٹر جنرل سید سلیم گیلانی مرحوم کا بیٹا ہے۔ سلیم گیلانی نے ان سے اس وقت ایک امریکی خاتون سے شادی کی تھی جب وہ وائس آف امریکہ ریڈیو کے لیے امریکا میں کام کر رہے تھے۔

داؤد 1960میں واشنگٹن میں پیدا ہوا تھا ۔ اس کے کچھ دن بعد سلیم گیلانی اپنے خاندان سمیت پاکستان رہنے گیا لیکن یہ شادی چلی نہیں اور ساٹھ کی ہی دہائی میں ان کی بیوی امریکا لوٹ گئیں اور طلاق ہو گئی۔ داؤد گیلانی حسن ابدال کیڈٹ کالج میں پڑھے۔ اسکول کے بعد وہ اپنی والدہ کے پاس امریکا چلا گیا جس کے بعد پاکستان میں خاندان سے بہت کم تعلق رہا۔

انیس سو اٹھانوے میں داؤد گیلانی کو منشیات اسمگل کرنے کے کیس میں قصوروار پایا گیا اور تقریباً ڈیڑھ سال تک جیل میں رہا لیکن حکام سے تعاون کرنے کے باعث اسے جیل کی طویل سزا نہیں کاٹنی پڑی۔ وہ پھر امریکا کی انسداد منشیات ادارے کے پاکستان میں خفیہ آپریشنز میں کام کرنے لگا تھا۔ سنہ دو ہزار چھ میں وہ امریکا کے شہر شکاگو منتقل ہو ئے۔ سنہ دو ہزار پانچ یا چھ میں انہوں نے اپنا نام تبدیل کر لیا اور داؤد گیلانی ڈیوڈ کولمین ہیڈلی بن گیا۔

کس کا کھیل اور کس کا کھلاڑی 

تاہم یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہیڈلی آخر کس کا کھیل ، کھیل رہا تھا ؟ وہ کس کا ایجنٹ ہے؟ سی آئی اے ‘لشکر یاآئی ایس آئی کا؟کیونکہ ہیڈلی نے جھوٹ پر جھوٹ بول کر اصل سچ کو جھوٹ میں بدل دیا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہیڈلی نے 23مئی کو اپنی سماعت کے پہلے دن ایف بی آئی کے ایماء پر وعدہ معاف گواہ بنتے ہوئے جج اور جیو ری کے سامنے اقبال جرم کر لیا تھا۔لیکن ہیڈلی کو وعدہ معاف گواہ بنائے جانے پر ہندوستان کی طرف سے امریکہ پر شدید تنقید کی گئی۔ تاہم استغاثہ کے ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ ممبئی دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ڈیوڈ ہیڈلی سے ایک معاہدے کے بعد ملنے والی خفیہ معلومات سے ممکنہ دہشت گردی کے واقعات سے بچنے اور انسانی زندگیاں بچانے میں مدد ملی ہے

امریکی عدالت میں ہیڈلی نے ایک انکشاف یہ بھی کیا کہ اسے لشکر طیبہ سے ٹریننگ اور ہتھیار پہلی بار2000ء میں ملے ، جس میں لشکر طیبہ کے لیڈروں نے ہندوستان پر حملے کی بات کی ‘تو سب سے پہلے اس سے کہا کہ وہ اپنا نام بدل لے اور نئے نام سے پاسپورٹ حاصل کرے‘تاکہ وہ بے روک ٹوک ہندوستان کا سفر کرسکے۔ہیڈلی نے اس کے لئے اپنے پاکستانی نژاد کینیڈین دوست تہوار رانا کی امیگریشن کمپنی کو استعمال کیا۔

کی گرفتاری کیس ہوئی؟

 ڈیوڈ کولمین ہیڈلی اور تہوار حسین رانا کوایف بی آئی نے 27اکتوبر 2009کو شکاگو میں اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ کوپن ہیگن کے ایک اخبار کے کارکنان کے خلاف کارروائی کا منصوبہ بنارہے تھے۔

ہیڈلی پر الزام تھا کہ اس نے جیلینڈ پوسٹن کی عمارت اور سکے قریب واقع سینا گگ(یہودیوں کی عبادت گاہ) پر دہشت گردانہ حملہ کے لئے ان مقامات کا جائزہ لینے کی غرض سے ڈنمارک کا سفر کیا تھا۔تحقیقات شروع ہوئی تو ایف بی آئی نے انکشاف کیا کہ ہیڈلی اسی طرح ہندوستان بھی گیا تھا بلکہ بار بار گیا تھا۔

اس نے ممبئی کے دہشت گردانہ حملہ کے لئے بھی اہداف کی ریکی کی تھی اور ممبئی میں 2008کے حملہ کیلئے پاکستانی دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کی مدد کی تھی جس میں امریکی شہری مارے گئے تھے۔ ہیڈلی نے 18مارچ2010ء کو ایف بی آئی کے تمام الزمات قبول کر لی ۔

پرسرار شخصیت اور ایجنسیوں کھیل

ڈیوڈ ہیڈلی کی پراسرار شخصیت اور اس کی سرگرمیاں ابتداہی سے ایک معمہ رہی ہیں۔ایک طرف تو امریکا نے اسے ممبئی حملے کا ملزم قرار دیا ہے‘لیکن دوسری طرف نہ تو اس نے ممبئی حملے کی تحقیقات میں ہندوستان کی قومی تحقیقاتی ایجنسی(این آئی اے) کے ساتھ تعاون کیا‘نہ اسے ہندوستان کے حوالے کیا گیا۔

  وہ امریکہ کا سرکاری گواہ بن گیا اور ایف بی آئی کے ساتھ بھرپور تعاون کرتا رہا ۔وہ اپنے دہشت گردانہ منصوبوں کی باریکیاں بتاچکا ہے۔یہ بھی بتا چکا  کہ وہ کہاں کہاں گیا۔کس کس سے ملا اور کس کس نے اس کی مدد کی اور یہ بھی کہ اس کے پاکستانی دہشت گردوں کے نشانے کیا کیا تھے۔

یہ بات تو پہلے ہی آشکار آچکی ہے کہ وہ امریکہ کی ایک تفتیشی ایجنسی ڈی ای اے کے لئے عرصہ دراز تک کام کر چکا ہے۔ یہ حقیقت بھی منظر عام پر آچکی ہے کہ اس کی بیویوں نے بہت پہلے اس کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی شکایت امریکی اتھارٹیز سے کی تھی۔ لیکن انہو ں نے اس پر اس وقت تک خاموشی اختیار کئے رکھی جب تک ممبئی حملہ سرانجام نہ دیاگیا جبکہ اسکا مجرمانہ ریکارڈ ان کے سامنے تھا۔

 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے عین فطری ہے کہ کیا وہ سی آئی اے کا ایجنٹ تھا؟ یا اسے اور اس کی سرگرمیوں کو سی آئی اے کی حمایت حاصل تھی۔ورنہ وہ بار بار غیر ملکی سفر کیسے کرتا رہا؟ کیا امریکہ میں ایک ہی شخص کا مختلف ناموں سے پاسپورٹ حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہے۔جتنی آسانی سے اسے سفری دستاویزات وسہولیات حاصل ہوتی رہیں؟

دراصل 24نومبر 2010کو ایک رپورٹ آئی تھی کہ پاکستانی فوج کے 5افسران جن میں ایک ریٹائرڈ افسر بھی شامل ہے اورد و لیفٹیننٹ کرنل اس سلسلے میں پاکستان میں تفتیش کے لئے حراست میں لئے گئے ہیں۔لیکن اگلے دن فوج کے ترجمان اطہر عباس نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہاتھا کہ فوج کے صرف ایک سابق میجر کو حراست میں لے کر تحقیقات کی جارہی ہے ۔

خود ہیڈلی نے جون2010ء میں ہندوستانی تفتیش کاروں سے کہا تھا کہ اس کے ممبئی کے سفر کا خرچ آئی ایس آئی کے ایک افسر نے اٹھایا تھا ۔میجر اقبال نے ہیڈلی کو ممبئی آفس کھولنے کیلئے 25ہزار ڈالر دئیے تھے۔

ہیڈلی کا بیان ہے کہ میجر اقبال لشکر طیبہ کے منصوبہ کا سپر وائزر تھا۔تاہم پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان آرمی یا آئی ایس آئی کا ڈیوڈ ہیڈلے کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ اس الزام کا مقصد پاکستان کے سلامتی کے اداروں کو بدنام کرنا ہے

ممبئی میں ہوئے 26/11 کے حملوں کی سازش رچنے کے الزام میں ہیڈلی شکاگو کی فیڈرل جیل میں 35 سال کی سزا کاٹ رہا ہے۔ 

لفاظ اور کلاکار ہے وہ

 ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ممبئی کی عدالت میں گواہی لی جاری ہے۔ ہیڈلی نے اپنی گواہی میں کچھ نئے انکشافات کئے تھے ۔ ہیڈلی نے کہا تھا کہ آخر وہ کیوں لشکر میں شامل ہوا۔ ہیڈلی نے کہا کہ مجھے ہندوستان سے 1971 سے ہی نفرت تھی، کیونکہ اس وقت کی جنگ میں ہندوستان نے جو بم پاکستان پر گرائے تھے، اس میں میرا اسکول مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا، تبھی سے مجھے ہندوستان سے نفرت ہو گئی تھی۔

ہیڈلی نے ایک اور بڑا انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے والد ریڈیو پاکستان کے ڈی جی تھے۔ دسمبر 2008 میں جب میرے والد کی موت ہوئی تھی ، تو اس کے چند ہفتے کے بعد اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی میرے گھر آئے تھے اور مجھ سے ملے تھے۔

جرح کے دوران ہیڈلی نے ہندی میں کہا تھا کہ ہاں میں بہت خراب انسان ہوں، یہ میں نے مان لیا ہے، اگر آپ دوبارہ کہتے ہیں ، تو میں پھر سے مان لیتا ہوں کہ میں بہت زیادہ خراب انسان ہوں۔

ایک اور سوال کے جواب میں ہیڈلی نے کہا تھا کہ میں امریکہ کی کس جیل میں بند ہوں اور ابھی کہاں ہوں ، میں اس کا انکشاف نہیں کر سکتا ۔ مجھے امریکہ جیل میں کیا کیا اجازت دیتا ہے، یہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا ۔ یہ سچ نہیں ہے کہ میں جیل میں عیش و آرام سے بھرپور زندگی گزار رہا ہوں۔

ممبئی حملوں کے بعد بہت کچھ ہوا ،ہند ۔ پاک تعلقات خراب ہوئے،حالات جنگ تک پہنچ گئے تھے۔سفارتی تعلقات ٹھپ ہوگئے تھے ۔ قصاب کو پھانسی ہوگئی لیکن ابھی ہیڈلی کا سچ سامنے نہیں آ یا ہے جو امریکہ کا قیدی ہے یا مہمان فیصلہ کرنا مشکل نہیں۔