سیفی: جن کا 'نصف ایمان' ایک مثال ہے

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 05-07-2022
  سیفی: جن کا 'نصف ایمان' ایک مثال ہے
سیفی: جن کا 'نصف ایمان' ایک مثال ہے

 


شائستہ فاطمہ/نئی دہلی

محمد احمد سیفی ایک ایک الیکٹریشن  تھے، تاہم انہوں نے اپنی نوکری چھوڑی دی تاکہ وہ اپنے گھر اور علاقے کی گندگی کو صاف کرسکیں۔ وہ ایم سی ڈی کے ملازم نہیں ہیں بلکہ وہ ایک رضاکار صفائی کرمچاری ہیں، جو اپنے محلہ کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں،تاکہ اس علاقےکے باشندے گندی ہوا سے پھیلنے والی بیماریوں سے دور رہیں۔

چھتہ لال میاں پرانی دہلی کے علاقے مٹیا محل  سے قریب ایک چھوٹا سا محلہ ہے۔ یہ محلہ بھول بھولیاں جیسا ہے۔ چھتہ لال میاں کو  صاف ستھرا رکھنے کے لیے محمد احمد سیفی نےاسےاختیارانہ طور پر گود لیا ہے۔ وہ اسی علاقے کے گیل بہار والی گلی میں رہتے ہیں۔ شہر کی اس گھنی آبادی والے پرانے کوارٹر میں تنگ گلیاں ہیں جن میں کثیر المنزلہ مکانات ہیں اور بجلی کے کھمبوں سے لٹکی ہوئی بجلی کی نگی اور گنجلک تاریں ہیں۔

محمد احمد سیفی روزدوپہر کو اپنے گھر سے نکلتے ہیں۔ان کی شکل و شباہت ایسی ہے کہ کوئی بھی ان کی شناخت کر سکتا ہے۔وہ اپنی عمر کی60 ویں دہائی میں گزر رہے ہیں۔ ان کے سر کے بال اور مونچھیں مہندی سے رنگی ہوتی ہیں۔وہ چوڑےفریم والا چشمہ لگاتے ہیں۔ دوپہر کے وقت وہ نیلے رنگ کی پتلون میں ملبوس، دستانے اور چہرے پر ماسک لگاکر گھرسے سیٹی بجاتے ہوئے نکلتے ہیں۔ اس وقت وہ اپنےسبز رنگ کی کوڑا گاڑی کے دیکھے جاسکتے ہیں۔ وہ ہرروز مکان نمبر447 سے 509 تک کے کوڑے کو اپنی کوڑا گاڑی میں اٹھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی گلی کو ہمیشہ چہل پہل سے بھرا دیکھا ہے۔ انہوں نے آواز دی آواز کو بتایا کہ تقریباً 30 سال پہلے یہاں کے رہائشی زیادہ تر غیر مسلم تھے۔ اس علاقے میں جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوتا گیا، غیر قانونی تعمیرات و تجاوزات میں اضافہ ہوتا گیا اور پھر سڑکوں پر کوڑا کا ڈھیر جمع ہونے لگا۔

ان کے والد گلزار احمد سیفی نارتھ ایم سی ڈی میں مکینک کے طور پر کام کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ میں کافی  چھوٹاتھا، میری عمر یہی کوئی7-8 سال  رہی ہوگی۔ میں ایم سی ڈی کے کارکنوں کو بے لوث طریقے سے گلیوں کی صفائی کرتے ہوا دیکھا کرتا تھا اور ان صفائی کرمچاریوں نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔ سیفی کا کہنا ہے کہ کوڑا کے ڈھیروں کو دیکھ کر انہیں تکلیف ہوتی تھی، وہ پریشان ہوجایاکرتے تھےاور اس کے بارے میں کچھ کرنا چاہتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سنہ27 جنوری2016 کوایم سی ڈی کےعملےنے12دن کی ہڑتال کی، اس دوران میں نے جھاڑواٹھایا اور پھرکبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ہمیشہ اس قسم کا کام کرنا چاہتا تھا، لیکن مجھے ایم سی ڈی ہڑتال کےدوران یہ سب کرنے کا موقع ملا، مجھے ہڑتال کے ایک دن بعد کی صبح یاد ہے۔

پوری گلی کوڑے سے بھری ہوئی تھی،میں نےکسی طرح اپنےاندرہمت پیدا کی،ایک جھاڑو لیا، گاڑی کا بندوبست کیا اور اس طرح گلی کی صفائی کام شروع کر دیا۔وہ بتاتے ہیں کہ ابتداً 9-10دیگررضاکاران کے ساتھ شامل ہوئے لیکن آج وہ اپنی گلی میں صفائی مشن پر اکیلے کھڑے ہوئے ہیں۔ محمد احمد سیفی کے دن کی شروعات  چائے اور پاپے کے ناشتے کے ساتھ ہوتی ہے۔ سیفی ایک باعمل مسلمان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ظہر کی نماز ادا کرنےکےبعداپنے کام کے لیے روانہ ہوتا ہوں، میں اپنی سیٹی بجا کر، سڑک پر پڑا کوڑا اٹھاتا ہوں اور گھروں کی دہلیز کے قریب وقفے وقفے سے رہائشیوں کے آنے کا انتظار کرتا ہوں کہ وہ اپنے گھر کا کوڑا باہر نکال کر لائیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنی مخلوق سے کہتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے اردگرد کو صاف ستھرا رکھیں اور میں یہی چاہتا ہوں۔آج سیفی کی صفائی مہم سے سبھی واقف ہیں۔وہ اپنے پاس پڑوس میں،خاندان اورمیڈیا ہاوس میں جانے جاتے ہیں۔ تاہم ان کا سفرہمیشہ گلابوں سے بھرانہیں ہے۔ سیفی بتاتے ہیں کہ میری بڑی بیٹی کی شادی دسمبر 2015 میں ہوئی تھی۔ بیٹی کے سسرال والے اور میرا داماد میرے صفائی کے کام سے ناخوش ہوگئے، وہ ان کے لیے شرمندگی کی بات تھی۔  تاہم آج ہر کوئی میری اورمیرے کام کی تعریف کر رہا ہےلیکن اگرمیڈیا اس کی کوریج نہ کرتا توشایدمیں اپنا کام بند کر دیتا۔

وہ اپنے ابتدائی دنوں میں میگا فون کا استعمال کرتے ہوئےیاد کرتے ہیں۔علاقے کے لوگ ملنسار نہیں تھے۔ان کا رویہ دوستانہ نہیں تھا،وہ مجھ پر کوڑا کے پیکٹ بھی پھینک دیا کرتے تھے، کبھی کبھی وہ بچوں کےڈائپر پر بھی مجھ پھینک دیا کرتے تھے۔اس کے بعد میں مقامی لوگوں پر مقدمہ درج کردیا، جس کے بعد لوگوں کو مجھ سے معافی مانگنی پڑی۔ محمد احمد سیفی کی اہلیہ پروین کہتی ہیں کہ ہم اسے کچڑا اٹھانے والے کے طور پر قبول نہیں کر سکتے تھے، ہمارے اردگرد ہر کوئی ہمیں بھنگی کہہ کر خطاب کرنے لگا تھا۔ (عام طور پر بھنگی کا لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو معمولی کام کرتے ہیں، مثلاً چوکیدار، کباڑی والے،کوڑااٹھانے والا وغیرہ)۔

وہ بتاتی ہیں کہ گھر کے حالات بہت کشیدہ تھے، تاہم میرے شوہر سیفی نے کبھی ہمت نہیں ہاری، انہوں نے کبھی پیسے کے لیے کام نہیں کیا، بلکہ سماجی خدمت کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔ سیفی نے اپنی اہلیہ اور بیٹی کو بتایا کہ اپنی گلی کو صاف رکھنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔  پروین کہتی ہیں کہ وہ گذشتہ سات سال سے یہ کام کر رہے ہیں، اب اس کے نتائج سامنےآرہے ہیں،میڈیا میں بھی ہماری ستائش کی جا رہی ہے۔اب مجھے اپنے شوہر پر فخر محسوس ہو رہا ہے اور میرے علاقے کے لوگ  انہیں  راجہ  کہہ کر بلانے لگے ہیں۔

پروین مزید کہتی ہیں کہ جیسے ہم سب اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھتے ہیں اور سیفی گلی کو صاف رکھتے ہیں۔ اپنے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے سیفی نے ہری بھائی (میڈیا کے اہلکار، فی الحال این ڈی ٹی وی کے ساتھ کام کر رہے ہیں) کے نام کا اکثر ذکر کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے انا آندولن میں کام کیا ہے، یہیں پر میری ہری بھائی سے دوستی ہوئی اورمیں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان کے توسط سےمیں اپنی کہانی لوگوں کو بتا سکا۔

وہ اپنے رضاکارانہ کام کے ساتھ اپنے خاندان کی دیکھ بھال کیسے کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ سب کچھ پیسے کے لیے نہیں کیا جاتا، گھرکاانتظام میری بیوی کےسلائی کے کام کےساتھ ساتھ میری بیٹی کی طرف سے دی جانے والی ٹیوشن کلاسوں سے پورا ہوتا ہے۔ ایم سی ڈی  دہلی شہر کو صاف ستھرا رکھنے کا کام کرتی ہے۔اس بارے میں سیفی کو شکایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایم سی ڈی کےلوگ یہاں آتے ہیں تاہم وہ صد فی صد تعاون نہیں کرتے ہیں۔

میرا کام میرے لیے مقدس ہے، لیکن یہ ایم سی ڈی والے صفائی کے پرائیویٹ ٹینڈر لینے میں بھی یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے ان میں دلچسپی کا فقدان ہے۔ سیفی نے آواز دی وائس کو بتایا کہ پرانی دہلی میں اپنے گھروں کے احاطے میں دکانیں اور کارخانے رکھنے کا رواج اب بھی رائج ہے۔ اس لیے لوگ ماحول پر توجہ دینے کے بجائے اضافی رقم کے لالچ میں ان جگہوں پر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کورونا وائرس کے  اور لاک ڈاؤن پر بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سب اچھے سے گزر گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاقے کے ہیلتھ ورکرز نے اسے ماسک اور دستانے فراہم کیے۔ اس کے بعد ماسک لگانا ان کی عادت بن گئی ہے۔

کوڑا اٹھانے سے مجھے کبھی کوئی طبی پریشانی نہیں ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ صفائی ایک ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کو بھی پسند ہے۔اس طرح مجھے اس کی نعمتیں حاصل ہیں۔ سیفی کو سنٹرل ڈسٹرکٹ کے اس وقت کے ڈی سی پی سنجے بھاٹیہ نے کورونا واریر ایوارڈ سے نوازا تھا۔ سیفی کا خیال ہے کہ گھر کی خواتین حقیقی گیم چینجر ہیں اور دوسروں کو صفائی کی اہمیت سے آگاہ کر کے حقیقی فرق لاسکتی ہیں۔

ان کی گلی سےمتصل ایک گلی ہے،جسےگلی حافظ لقمان کہتے ہیں۔گذشتہ دو سال سے اس گلی کے رہائشی سیفی ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں، جس سے محمد احمد سیفی بہت خوش ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میرے دوست سراج ملک نے میرے کام سے متاثر ہوکر اپنی گلی میں بھی ایسا ہی ایک سلسلہ شروع کرنے میں میری مدد کی ہے۔ آج انہوں نے ایک  صفائی کرمچاری  پانچ ہزار روپیہ ماہوار پر کوڑا اٹھانے کے لیے رکھا ہے، جو دوپہر کو کوڑا اٹھانے آتے ہیں۔

محمد احمد سیفی کہتے ہیں کہ پرانی دہلی میں لوگ کوڑا کے پیکٹ کو اوپر سے پھینکنے کے عادی ہیں، ان کے لیے کوڑے دان استعمال کرنے کا خیال ابھی تک نیا ہے۔ سیفی کہتے ہیں کہ محنت اتنی خاموشی سے کرو کی کامیابی شور مچا دے۔ میں صرف امید کرتا ہوں کہ یہ تبدیلی میلوں تک جائےگی اور بہت سے لوگ اپنے علاقے، شہر، ریاست اور ملک کو صاف ستھرا رکھنے کے کام سے وابستہ ہو جائیں گے۔