کرناٹک: کیوں اور کس نے کیا درگاہ کو مسمار

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
کرناٹک: کیوں اور کس نے کیا درگاہ کو مسمار
کرناٹک: کیوں اور کس نے کیا درگاہ کو مسمار

 


آواز دی وائس، بنگلورو

ریاست کرناٹک کے ضلع رام نگر کے کنکا پورہ تعلقہ کی 300 سالہ قدیم حضرت سید مراد شاہ ولی درگاہ کو بدھ کے روز اہلکاروں نے مسمار کر دیا۔اہل کاروں نے دعویٰ کیا تھا کہ  سرکاری زمین پر درگاہ بنائی گئی تھی۔

حضرت سید مراد شاہ ولی درگاہ  کی 2.33 ایکڑ اراضی پر بنی ہوئی تھی، جس کے ساتھ ایک عید گاہ شامل ہے۔ ہر برس مقامی اور غیر مقامی افراد یہاں عرس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ حضرت سید مراد شاہ ولی درگاہ  ٹیپو سلطان کی فوج  میں ایک سپاہی تھے۔

مقامی باشندوں کا الزام ہے کہ وقف بورڈ کے افسران کی لاپرواہی سے مزار کو مسمار کیا گیا ہے۔  خیال رہے کہ سنہ 2020 میں  رئیل اسٹیٹ ٹھیکیدار ابھیشیک گوڑا نے ایک عرضی داخل کی تھی جس میں مبینہ طور پر یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ سرکاری جائیداد ہے جس پر مسلمانوں نے زبردستی قبضہ کررکھا ہے۔انہوں درگاہ کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

 مقامی عدالت کی طرف سے نوٹس کے فوراً بعد مسلم قائدین نےاس بات کو وقف بورڈ کے علم میں لایا اور بنگلورمیں تمام معاون دستاویزات جمع کرائے۔ درگاہ کمیٹی کے صدر ریاض نے کہا کہ  ہمیں پورا یقین تھا وقف بورڈ کی جانب سے اس معاملے کو حل کرنے میں دلچسپی دکھائی جائے گی اور ہم عرس منا پائیں گے۔مگر ہمیں مایوسی ہوئی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہم گزشتہ300 سالوں سے عرس منا رہے ہیں۔ انہوں نےوقف بورڈ پر الزام لگایا کہ وقف بورڈ نے ہمارے مسئلے کو حل نہیں کئے۔ وہیں کنکا پورہ تعلقہ سے تعلق رکھنے والے شارق خان نے بتایا کہ ہم مسلمان گزشتہ کئی سالوں سے مراد شاہ ولی کی درگاہ پر تعزیت کے لیے جا رہے تھے۔ درگاہ کو منہدم کرنا ناقابل قبول اور ہمارے مذہبی جذبات کے خلاف ہے۔

انہوں  نے مزید کہا کہ عیدگاہ کی زمین کسی کی نجی ملکیت تھی، جسے انہوں درگاہ کے لیے وقف کر دی تھی۔ 

کنکا پورہ گاؤں کے رہائشی تبریز نے کہا کہ  8کنکا کی عیدگاہ میں مسلمان نماز ادا کیا کرتے تھے۔درگاہ کے پیرصاحب نے گاؤں کے لوگوں کو یہاں نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی۔

انہوں نے الزام لگایا کہ اس وقف اراضی کو غیر قانونی طور پر مسمار کر کے سرکاری حکام نے قبضہ کر رکھا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے  پاس تمام ضروری دستاویزات موجود ہیں اور ہم  ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے جا رہے ہیں۔

کنکا پورہ تعلقہ سے تعلق رکھنے والے سلیم  کے پاس اراضی اور درگاہ کے تمام دستاویزات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2 سالوں سے یہ مقدمہ ہائی کورٹ میں چل رہا ہے اور وقف بورڈ کے مقرر کردہ وکلاء مقدمہ لڑنے میں ناکام رہے ہیں۔

سلیم نے مزید کہا کہ بدھ کی صبح سرکاری اہلکار تحصیلدار کے ساتھ آئے اور مزار کو مسمار کرنے کے دو دن بعد عدالت نے حکم امتناعی جاری کیا۔

انہوں نے کہا کہ  تحصیلدار نے لوگوں سے بہت جلد بازی کی اور انہیں بتایا کہ وہ احاطے میں نماز یا کوئی مذہبی عمل نہیں کر سکتے۔ اور ہم سے کہا گیا کہ اگر ضرورت ہو تو صرف کھیتی باڑی یا کسی اور قسم کے مزدوری کا کام  یہاں کیا جا سکتا ہے۔