صحافت ۔ موت کا کھیل

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-05-2021
دنیا بھر میں صحافی نشانہ پر
دنیا بھر میں صحافی نشانہ پر

 

 

  منصور الدین فریدی ۔نئی دہلی

جان کی بازی لگانے کا نام ہے صحافت۔ بائیں ہاتھ کا کھیل نہیں رہی اب صحافت۔ نام اور شہرت کے ساتھ خطرہ بھی کم نہیں ہے۔ یہ خطرے کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ کہیں سرکاری مشنری کا نشانہ تو کہیں مافیا کا نشانہ۔کہیں سیاستدانوں کا نشانہ تو کہیں پولیس یا فوج کا نشانہ۔ حقیقت یہ ہے کہ اب صحافت دو دھاری تلوار پر چلنا ہے۔ توازن کا کھیل ہے۔جہاں توازن بگڑا جانب کے لالے پڑ گئے۔ایسا کسی ایک ملک میں نہیں ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں یہی حال ہے۔ 3 مئی کو 'ورلڈ پریس فریڈم ڈے 2021' منایا جارہا ہے۔دنیا بھر میں صحافیوں کے ساتھ ہورہے سلوک پر بحث جاری ہے۔اعداد وشمار پیش کئے جارہے ہیں۔صحافیوں کے سر پر منڈلاتے خطرے کے بارے میں دنیا کو بتایا جارہا ہے کہ جو صحافی دن رات سچ کو سامنے لانے کےلئے سرگرم رہتے ہیں انہیں کس طرح زندگی میں خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی نہیں کووڈ 19 کے وبائی مرض سے پوری دنیا میں آزادی صحافت کو ایک دھچکا پہنچا ہے۔

آزاد میڈیا کوغلام بنانے کا کھیل

 آج ورلڈ پریس فریڈم ڈے کے موقع پر ویانامیں بین الاقوامی پریس انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آئی) نے خبردار کیا ہے کہ آمرانہ سوچ اور غیر جانبدار حکومتوں کی جانب سے آزاد میڈیا کو دبانے کی کوششوں میں بتدریج اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔آئی پی آئی کی 'کووڈ 19 پرس فریڈم ٹریکر' رپورٹ کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں آزادی صحافت کی 635 خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ہندوستان کورونا کی وبا سے لڑرہا ہے جہاں آزادی صحافت سے متعلق سب سے زیادہ 84 خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئیں۔ آئی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر باربرا ٹرونفی نے کہا کہ پریس کی آزادی پر کھلے عام حملوں میں اضافہ اور دنیا بھر میں آمرانہ اور غیر فکری سوچ رکھنے والی حکومتوں میں صحافیوں کو نشانہ بنانا جمہوری آزادیوں کے مستقبل کے لئے بد شگونی کی علامت ہے۔جہاں بھی دیکھیں آزادیِ صحافت پر حملہ ہورہا ہے، حملوں کی حکمت عملی اور طریقوں کو دیگر حکومتیں بھی اپنا رہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت مخالف حکومتوں میں تیزی سے یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ وہ میڈیا کو خاموش کرسکتے ہیں۔اس کا اثر نمایاں ہے جس سے دیگر ریاستوں کو بھی اس کی پیروی کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔

ایک سال میں 49 صحافی قتل ہوئے

آئی پی آئی کے 'ڈیتھ واچ' کے مطابق گزشتہ 12 ماہ کے دوران کم از کم 49 صحافی ہلاک ہوئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ان میں سے 43 کو ان کے کام کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ مسلح تنازع کی کوریج کے دوران 3 صحافی مارے گئے اور شہری بدامنی کی رپورٹنگ کے دوران ایک ہلاک ہوا جبکہ اسائنمنٹ کے دوران 2 صحافی مارے گئے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران افغانستان میں 7 صحافی اپنی زندگی سے محروم ہوئے جو ٹارگٹ کلنگ کی سب سے بڑی تعداد تھی۔ میکسیکو میں منشیات کے کارٹلز اور منظم جرائم کے بارے رپورٹس کی وجہ سے 6 صحافی ٹارگٹڈ حملوں میں مارے گئے۔دنیا بھر میں صحافیوں کے قاتلوں کو استثنیٰ ملنا معمول کی بات ہے لیکن صحافی کے قتل کے ماسٹر مائنڈ کو کبھی انصاف کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ یورپی یونین کے رکن ملک ہنگری نے ملک کے آخری آزاد ریڈیو براڈکاسٹر 'کلبریڈی' کو آن ایئر کرنے سے روک دیا۔دوسرے ممالک خصوصاً پولینڈ میں سرکاری تیل کمپنیانیوں نے علاقائی اخبارات کے سب سے بڑے نیٹ ورک کو خریدا ہے۔ ترکی میں سب سے زیادہ صحافیوں قید ہیں اور نئے قانون کے تحت بڑے پیمانے پر ڈیجیٹل سنسرشپ کی جاری ہے۔آمریت پسندی اور نام نہاد 'لبرل' جمہوریت پسند ممالک میں میڈیا کی آزادی کو زوال کا سامنا ہے جس میں میانمار، بیلاروس اور چین شامل ہیں۔

برما میں خون کی ہولی ۰

 برما میں یکم فروری کو فوجی حکومت نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے ہی درجنوں صحافیوں کو قید کردیا ہے۔ رپوٹرز وِٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کا کہنا ہے کہ برما میں بغاوت نے پريس کی آزاديوں کو “دس دنوں ميں دس سال” پيچھے دھکيل ديا ہے، علاوہ ازيں “صحافیوں کو دھمکیاں ، ہراساں اور سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برما کی فوجی حکومت نے “بغاوت” اور “حکومت” سمیت کچھ الفاظ پر پابندی عائد کردی ہے۔20 اپریل کو جاری کردہ آر ایس ایف کے 2021 ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں ، برما بدترین خلاف ورزی کرنے والوں کی صف میں ایران ، روس ، عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) ، میں شامل ہو گيا ہے۔ 180 ممالک میں سے ، برما کا نمبر 140 ہے ، جبکہ روس ، ایران اور پی آر سی درجہ بندی ميں نچلی سطح پر ہيں: بالترتیب 150 ، 174 اور 177۔

پاکستان مں زمین تنگ

 بات پڑوسی پاکستان کی کریں تو میں صحافیوں پر زندگی مزید تنگ ہوگئی ، ایک سال کے دوران صحافیوں پر ہونے والے حملوں میں 40 فیصد اضافہ ہوگیا۔پاکستان فریڈم نیٹ ورک کی تازہ ترین رپورٹ نے صحافیوں پر حملوں اور ہراسانی کے واقعات میں گزشتہ ایک سال میں 40 فیصد اضافہ ہونے کا انکشا ف کیا ہے۔ادارے کے مطابق گزشتہ سا ل مئی 2019 سے اپریل 2020 تک صحافیوں اور میڈیا کے کارکنوں پر حملوں اوردیگر خلاف ورزیوں کے 91 واقعات رپورٹ ہوئے لیکن اس سال اسی نوعیت کے 148 واقعات دیکھے گئے۔رپورٹ میں صحافیوں کی آواز دبانے کےلئے قانونی مقدمات کے قیام کے بڑھتے ہوئے رجحان کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا جبکہ پاکستان کا دارالخلافہ اسلام آباد صحافیوں کےلیے سب سے زیادہ خطرناک ٹھہرا۔ پاکستان فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق اس سال صحافیوں پرجو 148 حملے کیے گئے اس میں6 واقعات میں صحافی اپنی فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل کیےگئے۔ 7 واقعات میں قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش کی گئی، 5واقعات اغواء کے رپورٹ ہوئے، جبکہ 25 میں صحافیوں کو حراست یا نظربند کیا گیا۔

اسلام آباد سب سے خطرناک

 بظاہر عام لوگوں کو پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد بہت محفوظ لگتا ہے۔ تاہم اس رپورٹ کے مطابق سال 21-2020 میں ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں یہ صحافیوں کے لئے خطرناک ترین شہر ثابت ہوا ہے۔رپورٹ میں148 میں سے 51 واقعات کے باعث اسلام آباد کو صحافیوں کےلیے سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا گیا ہے ۔جس کے بعد 38کیسز کے ساتھ سندھ فہرست میں دوسرے تو پنجاب 29 واقعات کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا ۔ خیبرپختونخوا میں صحافیوں پر حملوں اور ہراسانی کے 13واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ جموں و کشمیر میں 9 تو بلوچستان سے 8 واقعات رپورٹ ہوئے۔رپورٹ میں دیکھا گیا کے 148 میں سے 54 فیصد واقعات میں الیکٹرانک میڈیا سے جڑے صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ 38 فیصد میں پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی تو 7 فیصد واقعات میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے جڑے صحافی ٹارگٹ ہوئے۔ فریڈم نیٹ ورک کے اعداد و شمار کے مطابق 21-2020 میں 148 کیسز میں سے 34 فیصد کیس (51 کیس) اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے جبکہ سندھ صحافیوں کے لیے دوسرے نمبر پر خطرناک صوبہ رہا جہاں 26 فیصد یعنی 38 واقعات، پنجاب میں 29، خیبر پختونخوا میں 13، پاکستان کے زیر انتطام کمشیر میں نو، بلوچستان میں آٹھ جبکہ گلگت بلتستان میں کوئی بھی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔

چین کا حال برا

 بیجنگ “بدستور نٹرنیٹ سنسرشپ ، نگرانی اور پروپیگنڈہ کو غیر معمولی سطح پر لے جا رہا ہے۔ چین دنیا میں بین الاقوامی جبر کی انتہائی پيچيدہ،عالمی اور جامع مہم چلاتا ہے۔ گلچہرہ ہوجا ڈیڑھ درجن ریڈیو فری ایشیاء (آر ایف اے) صحافیوں میں سے ایک ہے جن کے رشتہ داروں کو پی آر سی نے ان کی رپورٹنگ کے جواب میں نشانہ بنایا ہے۔ دنیا بھر میں صحافیوں کی زندگی ان کے پیشہ کے سبب داو پر لگی ہے۔ ہر دن ان کےلئے کام کا ماحول سخت اور خطرناک ہورہا ہے۔غیر دوستانہ ماحول میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔ کبھی کبھی صحافیوں کو دو طرفہ مار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر سال یہ دن مناتے ہیں لیکن ہر سال صحافیوں پر منڈلاتا خطرہ بڑھ ہی رہا ہے ۔شاعر نہ کہا ہے کہ ۔۔۔مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔۔اسی کے مصداق صحافیوں کےلئے ہر سال اور ہر دن پیشہ ور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران خطرہ بڑھ ہی رہا ہے جس نے صحافت کو موت کا کھیل بنا دیا ہے۔