ہندوستانی مسلمانوں کے ڈی این اے میں شامل ہے صوفیہ کی رواداری

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-06-2023
ہندوستانی مسلمانوں کے ڈی این اے میں شامل ہے صوفیہ کی رواداری
ہندوستانی مسلمانوں کے ڈی این اے میں شامل ہے صوفیہ کی رواداری

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

ہندوستان، مسلمانوں کی کثیر آبادی والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ سعودی عرب، عراق، ایران، شام، ترکی جیسے ممالک کے مقابلے یہاں مسلمان زیادہ تعداد میں رہتے سہتے ہیں اور الحمدللہ اسلامی شعار کے ساتھ زندہ ہیں۔ ایسے وقت میں جب دنیا بھر سے دہشت گردی کے واقعات کی خبریں آرہی تھیں ہندوستان امن وامان کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔ اس ملک کے مسلمان امن پسند واقع ہوئے ہیں۔ یہاں دہشت گردانہ واقعات بہت کم ہوئے ہیں اور جو ہوئے ان کا غیرملکی رابطہ بھی سامنے آیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمان امن پسند ہیں۔ وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے جمہوری اداروں کی جانب دیکھتے ہیں، ہتھیاروں کی طرف نہیں۔مسلمانوں نے کبھی تخریبی تحریکیں نہیں چلائیں۔ ٹرینیں نہیں روکیں، سڑکیں نہیں جام کیں، ٹرافک میں رکاوٹ نہیں ڈالا، پبلک ٹرانسپورٹ میں توڑ پھوڑ نہیں کی ہو۔

 سوال یہ ہے کہ آخر یہاں کے مسلمان اس قدر امن پسند کیوں ہیں؟  وہ اپنے مسائل کے خلاف پرامن طور پر ہی جدو جہد کرتے ہیں؟ آج دنیا کو حیرت ہے کہ ہندوستانی مسلمان کس مٹی کے بنے ہیں کہ وہ تشدد پر آمادہ نہیں ہوتے، تخریب کاری سے دور رہتے ہیں اور دہشت گردی انھیں چھو کر نہیں گزرتی ہے۔اصل میں اس کی بنیادی وجہ یہ محسوس ہوتی ہے کہ یہاں اسلام کی اشاعت میں صوفیہ کرام کا خون جگر شامل رہاہے جنھوں نے پیار، محبت، امن ویکجہتی کی تعلیم دی ہے اور انسانیت کا احترام انھیں سکھایا ہے۔

awaz

 صوفیہ محبت کے علمبردار تھے

          صوفیہ کے نظریات کو تصوف کہتے ہیں اور یہ محبت کا پیغام ہے۔ یہ محبت کو کائنات کی روح مانتا ہے۔ تصوف کی نظر میں یہ دنیا محبت کی جگہ ہے نہ کہ نفرت کی۔نفرت کی کوکھ سے تخریب جنم لیتی ہے جبکہ محبت تعمیر کی جنم داتا ہے۔ اس دنیا کو محبت کے لئے پیدا کیا گیا ہے، نفرت کے لئے نہیں۔ انسان بھی یہاں تعمیر کے لئے آیا ہے تخریب کے لئے نہیں۔

معروف صوفی حضرت بابافریدالدین گنج شکر کے ملفوظات میں ہے کہ رسولِ محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

          ”ایمان والے کا دل،اللہ کا عرش ہے۔  (راحت القلوب(ملفوظاتِ فریدا لدین گنج شکر) مجلس 5)

          سلسلہ چشتیہ کے مورث اعلیٰ حضرت ممشاد دینوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

          ”ایمان والے کے دل میں اللہ کی جگہ ہے کہ وہ دل کے سوا باطن میں کہیں نہیں پہنچتا۔“ (نفحات الانس، صفحہ257)

          جو مقام عرش ِ الٰہی ہو وہاں نفرت کیسے سما سکتی ہے؟ یہی سبب ہے کہ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں نفرت کو جگہ نہیں ملتی۔ اس دنیا میں اگر محبت کو عام کردیا جائے تو نفرت خود بہ خود ختم ہو جائیگی۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے محبت کے ساتھ رہنے کا سبق صوفیہ سے سیکھا ہے اور ہم غیر اختیاری طور پر آج بھی کہیں نہ کہیں صوفیہ اور اللہ والوں کے اثر میں جی رہے ہیں۔                             

شاہ ہمدان کی تعلیمات دہشت گردی کی مخالف

          ہندوستان صوفیوں اور اللہ والوں کا ملک ہے اور یہاں ایک سے بڑھ کر ایک بزرگ آئے۔ انھیں برزگوں سے ہم تک اسلام پہنچا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس ملک کے مسلمان کہیں باہر سے نہیں آئے تھے بلکہ یہیں کے ہندووں اور بدھسٹوں نے سماجی عدم مساوات سے بچنے کے لئے اسلام کے دامن میں پناہ لیا تھا۔  کشمیر میں روحانی انقلاب جن بزرگوں کے سبب آیا ان میں ایک نمایاں نام حضرت سید علی ہمدانی کا ہے۔

          حضرت شاہ ہمدان سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’ذخیرۃ الملوک‘میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں:

          ”اللہ پاک کے نزدیک وہ دل بہت ہی پیارا ہے جواپنے بھائیوں پر زیادہ نرم اور مشفق ہے۔“(صفحہ157)

          ظاہر ہے کہ یہی وہ محبت اور احترام انسانیت کی تعلیمات ہیں جو اختیاری یا غیراختیاری طور پر ہمارے ایمان کے ڈی این اے میں شامل ہوگئی ہیں اور ہمیں تخریب کاری سے دور رکھتی ہیں۔

نظام الدین اولیاء کا عقیدت مند تخریب کار نہیں ہوسکتا

          حضرت نظام الدین اولیاء کے ملفوظات ’فوائدالفواد،، مرتبہ امیرحسن سنجری میں ایک مجلس کا ذکرہے:

          ”حاضرین میں سے ایک نے عرض کیا کہ بعض آدمیوں نے جناب کو ہر موقع پر برا کہا وہ آپکی شان میں ایسی باتیں کہتے ہیں جن کے سننے کی ہم تاب نہیں لا سکتے۔خواجہ صاحب نے فرمایا کہ میں نے سب کو معاف کیا تم بھی معاف کردواور کسی سے دشمنی نہ کرو۔ بعد ازاں فرمایا کہ چھجو،ساکن اندیپ ہمیشہ مجھے برا بھلا کہاکرتا اور میری برائی کے درپے رہتا۔ برا کہنا سہل ہے لیکن برا چاہنا اس سے برا ہے۔ الغرض جب وہ مرگیا تومیں تیسرے روز اسکی قبر پر گیا اور دعاء کی کہ پروردگار!جس نے میرے حق میں برا بھلا کہا،میں اس سے درگزرا،تو میری وجہ سے اسے عذاب نہ کرنا۔ا س بارے میں فرمایا کہ اگر دو شخصوں کے مابین رنجش ہو تو دور کردینی چاہیے۔اگر ایک شخص دور کر دیگا تو دوسرے کی طرف سے کم تکلیف ہوگی۔،،(جلد3،مجلس۔5)

          حضرت نظام االدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ برصغیر کے ایک معروف بزرگ گزرے ہیں جنھوں نے اپنی تعلیمات عام کرنے اور لوگوں کو انسانیت کا درس دینے کے لئے اپنے خلفاء کو ملک کے کونے کونے میں بھیجا تھا۔ ان کی خانقاہ کے دروازے امیر وغریب،شاہ وگدا، مومن ومنکر سب کے لئے کھلے رہتے تھے اور روزانہ ہزاروں افراد ان کی خانقاہ کے لنگر میں کھانا کھاتے تھے۔ جو لوگ یہاں آنے سے قاصر تھے انھیں اناج بھیج دیا جاتا تھا اور خانقاہ سے مدد پانے والے صرف دلی میں ہی نہیں تھے بلکہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے تھے۔ جس کا رہنما اس قدر،دانی اور انسانیت نواز ہو، اس کے اندر نفرت، تخریب کاری، دہشت گردی جیسی غیراخلاقی باتیں کیسے آسکتی تھیں؟

awaz

یہ پیغام پورے ملک میں عام ہوا اور اسی کے اثرات ہیں کہ ہم ان برائیوں سے دور ہیں۔ اسلام کا اصل پیغام وہی ہے جو صوفیوں کے ذریعے عام ہوا۔ آج جس قسم کی شدت پسندی اور غیرمعتدل راستے پر چلنے کی تلقین کی جارہی ہے وہ قطعی طور پر اسلام نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ بعض جاہل اور مفاد پرست لوگوں نے صوفیہ کی اصل تعلیمات کو پس پشت ڈال کر مزارات کا اکتساب زر کے لئے استعمال شروع کردیا جس سے یہ بھرم پیدا ہونے لگا ہے کہ صوفیہ کی اصل تعلیمات کیا ہیں؟آج ایک بار پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم دہشت گردی اور انسانیت کشی سے بھری ہوئی دنیا کے سامنے صوفیہ کی اصل تعلیمات لائیں اور اس کی اہمیت کا احساس دلائیں۔

پوتھی پڑھ پڑھ جگ موا، پنڈت بھیا نہ کوئے

 ڈھائی آکھر پریم کے،پڑھے سو پنڈت ہوئے