درگاہوں میں ہولی،اور صوفیانہ کلام میں رنگ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-03-2021
درگاہ دیوہ شریف،بارہ بنکی
درگاہ دیوہ شریف،بارہ بنکی

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

دیگرہندوستانی تہواروں کی طرح ہولی بھی محبت اور بھائی چارے کاتہوار ہے۔ ہندواساطیری روایات سے لے کرتاریخ کی کتابوں تک میں اس کا ذکرملتاہے مگر اس کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ہولی کا ذکر اہل تصوف کے کلام میں بھی ملتاہے۔اس کا مط؛ب یہ ہرگزنہیں کہ صوفیہ کے ہولی کھیلنے کی کوئی روایت ملتی ہے یا انھوں نے ایسا کوئی حکم دیاہے۔ اصل میں لفظ ہولی کا استعمال اہل سلوک نے استعارہ کے طور پرکیاہے۔ایک مشہورقوالی ہے:

آج رنگ ہے اے مہا رنگ ہے ری

آج رنگ ہے اے مہا رنگ ہے ری

میرے محبوب کے گھر رنگ ہے ری

مذکورہ بالاقوالی کو امیرخسروکی جانب منسوب کیاجاتاہے۔حالانکہ محققین اس کی تصدیق نہیں کرتے مگربہرحال ہے بے حدمشہور۔اس قوالی میں بھی رنگ کا ذکرتشبیہ اور استعارے کے طور پر ہی کیاگیاہے۔ اصل میں محبوب کے ساتھ ہولی کھیلنابھی ایک محاورہ ہے،جیسے مشہور ٹھمری ہے:

موہے کانھاجوآئے پلٹ کے

آج ہوری میں کھیلوں گی ڈٹ کے

مذکورہ ٹھمری میں کانہاکا لفظ محبوب کے لئے استعمال ہواہے جب کہ ہولی کھیلنے سے مراد محبوب کے ساتھ موج مستی کرنا ہے۔ بہت سارے صوفی شاعروں نے محبوب کے ساتھ ہولی کھیلنے کی بے مثل خواہش کا اظہارکیاہے۔ ویسے اگرصوفی شعرا کے کلام میں ہولی ارو رنگ کواستعاراتی کے بجائے حقیقی مان لیں تب بھی کوئی دقت کی بات نہیں کیونکہ صوفیہ جہاں بھی اپناپیغام پہنچانےگئے،انہوں نے اس جگہ کے رسم و رواج ، تیج تہوار اور زبان وکلچر کو اپنایا۔ یہی سبب ہے کہ ہندوستان میں تصوف پر ویدک تعلیمات کا اثر بھی پڑا۔

دہلی کے بزرگ شیخ نظام الدین اولیاء کہا کرتے تھے ، 'ہرقوم راست راہے دینے و قبلہ گاہے' جس کا مطلب ہے کہ ہرقوم کااپنا الگ راستہ ہے،اور الگ الگ طریقہ ہے۔

شیخ المشائخ نظام الدین اولیاکی درگاہ میں بسنت پنچمی منائی جاتی ہے۔روایات کے مطابق یہ سلسلہ شیخ کی زندگی سے جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ اس تہوار کو انھوں نے ایک علاقائی رواج کے روپ میں دیکھاتھا،مذہبی حکم کےطور پر نہیں لیاتھالہٰذااس میں کوئی قباحت نہیں سمجھی۔

ہولی اور تصوف کے حوالے سے یہ بات دلچسپ ہے کی ہندوستان میں صرف ایک ایسی درگاہ ہے جہاں ہولی منائی جاتی ہے اور وہ ہے درگاہ حاجی وارث علی شاہ، دیوہ شریف (بارہ بنکی۔یوپی)دیوہ میں ہولی کا جشن ہندواور مسلمان مل کرمناتے ہیں۔یہاں گیندے کے پھول اور گلال سے ہولی کھیلی جاتی ہے۔ شاہ وارث علی کا قول ہے جورب ہے وہی رام ہے۔ اسی قول کے اردگردان کی درگاہ کا کلچربھی نظرآتاہے۔ درگاہ کی تعمیرحاجی وارث علی کے ایک دوست راجہ پنچم سنگھ نے کرائی تھی۔

درگاہ خواجہ معین الدین چشتی پرہولی کے موقع پرخاص بھیڑ ہوتی ہے۔ ماناجات ہے کہ اس دن بہت سے عقیدت مند اس تصور کے ساتھ آتے ہیں کہ وہ خواجہ صاحب کے ساتھ ہولی کھیلنے آئے ہیں۔قوالی آج رنگ ہے ری کی دھن پر خوب دھمال ہوتاہے اورعرق گلاب وکیوڑہ سے ہولی کھیلی جاتی ہے۔

اجمیرشریف میں ہولی کا منظر

بہت سے صوفیہ نے ہولی کا ذکر اپنے کلام میں کیاہے اور بیشترنے اسے استعارے کے طور پرلیاہے۔صوفی شاہ نیازاحمدبریلوی کے چندمصرعے ملاحظہ کریں۔

ہوری ہوئے رہی احمد جیو کے دوار

نبی علی کو رنگ بنو ہے حسن حسین کھلار

ایسو انوکھو چتر کھلاڑی رنگ دنیو سنسار

نیازؔ پیارا بھر بھر چھڑکے ایک ہی رنگ پچکار

اسی طرح وارثی سلسلے کے مریداور صوفی شاعرپنڈت دیندار شاہ وارثی شائقؔ کا کلام ہے:

پیا وارث آ کھیلت ہوری

کھیلت ہوری کھیلاوت ہوری

پریم نگریا پھاگ رچی ہے

شبھ منگل سکھین ما مچی ہے

عیبر گلال تھالن مابھری ہے،

چابھت جات ہے پان گلوری

پیا وارث آج کھیلت ہوری

کیسر کے جل سے پیا کو نہلاؤ

کیسر رنگ پیتامبر لاؤ

نینن کجرا کی ماڑا جماؤ،

نیہہ کو عطر چمیلی ملوری

پیا وارث آج کھیلت ہوری

وارثی سلسلے سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اورصوفی شاعرنادم شاہ وارثی کا کلام ہے:

دیکھو جے گویاں پھاگن کی رت آئی

سیاں بن کے سنگ کھیلوں جائی

رنگ کے راگ سکھی سب گاویں

گھر گھر دھوم مچائی

رچ رچ چاچر لاگن دہماری

ڈھول دف جھانجھا بجائی

وارث پیا بن جیا مورا نادمؔ

ہُلس ہُلس رہ جائی

پنجابی صوفی شاعر بلھے شاہ نے لکھا ہے:

ہوری کھیلوں گی، کہ بسم اللہ

نام نبی کی رتن چڑھی، بوند پڑی اللہ اللہ