ہنومان مندر سمیتی نے کرائی مسلم جوڑے کی شادی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-03-2021
ہٹھیلے ہنومان مندر سمیتی کے عہدیداران نو بیاہتا مسلم جوڑے کے ساتھ
ہٹھیلے ہنومان مندر سمیتی کے عہدیداران نو بیاہتا مسلم جوڑے کے ساتھ

 

 

 راکیش چورسیا/نئی دہلی

اتر پردیش کے ٹنڈلا سے ایک خود آئند خبر گردش کر رہی ہے۔ کسی زمانے میں انگریزی حکومت کے مرکزکے طور پر معروف اس شہر نے معاشرتی فرقه وارانہ ہم آہنگی کی ایک منفرد مثال پیش کی ہے۔ یہاں کے ہٹھیلے ہنومان مندر سمیتی کے ہندو عہدیداروں نے ایک غریب مسلم لڑکی کا نکاح دھوم دھام سے کرایا ۔

پوری طرح اسلامی رسم و رواج سے اختتام پذیر ہونے والی اس تقریب اور جہیز کا انتظام مندر سمیتی کے حکام نے مل کر کیا ۔ محلہ ٹنڈلی کے رہائشی منا علی اپنے پورے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کی 5 لڑکیاں اور دو لڑکے ہیں۔ لڑکے راج مستری کا کام کر تے ہیں۔ منا علی مہنگائی کے اس دور میں راج مستری کے کام سے بمشکل گزارا کر پاتے ہیں ۔ اب بچے بھی بڑے ہو چکے ہیں۔ ان کی شادی ان کی استطاعت سے باہر تھی ۔ اس کے پیش نظر ایک دن منا علی نے ہٹھیلے ہنومان مندر سمیتی کے سربراہ اور سابق ڈی ایس پی اشوک سارسوت سے اس پریشانی کا ذکر کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ان کی دوسری بیٹی فر ین بانو اب بالغ ہو چکی ہے اور اسکی شادی کے اخراجات برداشت کرنے کی ان کی استطاعت نہیں ہے ۔ اس پر اشوک سارسوت نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں۔ ہم مندر سمیتی کی طرف سے فرین کی شادی کروائیں گے۔ مندر سمیتی کی پختہ یقین دہانی پر منا علی نے علی گڑھ کے رہائشی دانش سے اپنی بیٹی کی شادی طے کر دی ۔دانش نوئیڈا میں الیکٹرک کی دکان پر کام کرتے ہیں۔

اس کے بعد اشوک سارسوت نے مندر کی سمیتی کی میٹنگ میں شادی کی تیاریوں پر تبادلہ خیال کیا اور سمیتی کے ممبروں کے ساتھ اس کے انتظام میں لگ گیۓ ۔ طے شدہ پروگرام کے تحت 5 مارچ کو جمعہ کے روز بارات آئی جسے علاقے کی ایک سرائے میں ٹھہرایا گیا ۔

گوشت کے پکوانوں کا بھی انتظام

مندروں کی انتظامیہ شادی کے تمام انتظامات خود کئے ۔ باراتیوں کا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ سب سے خوشگوار بات یہ تھی کہ اس تقریب میں گوشت کے کھانوں کا بھی انتظام کیا گیا تھا حالانکہ مندر کے عہدیداران خود گوشت نہیں کھاتے ۔ کھانوں میں میں زردہ اور چکن شامل تھے ۔

شادی کی اس تقریب میں اشوک سارسوت ، این پی سکسینا ، ونود گپتا، آرپی شرما ، راگویندر سارسوت ، راجکمار گپتا ، ضمیر خان ، سلیم خان ایڈووکیٹ ، پنکج بنسل ، اکھیلیش ، سنیل کمار جین ، کنہیا سراف ، وکاس جین ، اننت سنگھل ، سمیت متعدد شخصیت نے اپنی طرف سے مالی امداد کی۔ ہر طرف سے تبادلہ خیال معاشرتی تانے بانے کو مضبوط کرنے والے اس واقعہ کی  اطراف کے علاقوں میں دھوم مچا دی ہے۔

اس واقعہ نے یہ ثابت کر دیا کہ ابھی بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو مذہب سے اوپر اٹھ کر انسان کے درد کو محسوس کرتے ہیں جس سے ان کے باطن میں موجود ان کی روحانی خوبصورتی اور عظمت نمایاں ہوتی ہے۔

گاؤں کی بیٹی ہماری بیٹی

مندر کے سربراہ اشوک سارسوت نے آواز ڈی وائس سے بات چیت میں کہا کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں ۔ گاؤں کی بیٹی ہماری بیٹی ہے- انہوں نے مزید کہا کہ وہ منا علی کو برسوں سے جانتے ہیں ۔ وہ بہت ہی بھلے شخص ہیں لیکن تنگدستی کی وجہ سے وہ شادی کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔

اشوک سارسوت

انہوں نے مزید کہا کہ منا علی کی پہلی لڑکی کی شادی میں بھی مندر کی کمیٹی نے مدد کی تھی۔ اشوک سارسوت نے مزید انکشاف کیا کہ مندر کی کمیٹی اس سے پہلے بھی سات غریب لڑکیوں کی شادی میں مدد کر چکی ہے۔ منا علی کہتے ہیں کہ وہ اشوک سارسوت سے شکر گزار ہیں جنہوں نے ذات پات اور مذہب سے اوپر اٹھ کر بیٹی کی شادی کروائی۔