عابد حسن کا ’نیتا جی‘کو ’جے ہند‘ کا تحفہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-01-2021
عابد حسن سفرانی
عابد حسن سفرانی

 

جے ہند کی دلچسپ تاریخ *
ہر کسی کی زبان پر رہا ہےیہ نعرہ*
قومی فخر کی علامت بن گیا ’جے ہند‘*
 
ملک اصغر ہاشمی / نئی دہلی
نہ صرف فوج اور پولیس بلکہ عوام کے درمیان بھی جے ہند کا نعرہ خاصی اہمیت کا حامل ہے- فوج اور پولیس کی کوئی پریڈ ایسی نہیں ہے جو اس نعرے کے بغیر مکمل ہوتی ہو- اسی طرح حب الوطنی سے لبریز کوئی تقریب ہو یا سیاسی لیڈران کی تقاریر، تمام کے تمام پروگرام اس نعرے کے بغیر ادھورے ہیں - یہاں تک کہ نیتا جی سبھاش چندر بوس بھی عوام اور آزاد ہند فوج کے فرزانوں میں جوش بھرنے کے لئے جے ہند کا نعرہ لگواتے تھے- لیکن کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ یہ نعرہ عابد حسن سفرانی کی اختراع ہے-

ہندوستان کی جنگ آزادی متعدد پرسرار شخصیات کی مرہون منت ہے- ان مایہ ناز ہستیوں کی فہرست میں عابد حسن سفرانی کا نام بھی آتا ہے جو نیتا جی سبھاش چندر بوس کے دست راست بھی تھے اور جنگ آزادی کے متحرک سپاہی بھی- آواز دی وائس ہندی کے مدیر ملک اصغر ہاشمی ان کی زندگی سے معتلق کچھ پوشیدہ پہلوؤں کا انکشاف کر رہے ہیں-

کولکاتا کا ''نیتا جی سبھاش چندر بوس بیورو'' بھارت ایکتا دیوس کے موقع ایک ایسی شخصیت کوبعد از وفات اعزاز دینے جارہا ہے جو نوجوان نسل کے لئے انجان ہے- اس شخصیت کی والدہ کونیتا جی سبھاش چندر بوس اما جان کہا کرتے تھے- دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جس نعرے کو نیتا جی سبھاش چندر بوس نے  اپنی فوج کے سپاہیوں میں جوش بھرنے کے لئے اپنایا وہ بھی اسی شخصیت کی تخلیق ہے- اس پراسرار شحصیت کا نام ہے عابد حسن سفرانی- نیتاجی کے124 ویں یوم
پیدائش کے موقع پرآواز دی وائس اس ناقابل فراموش ہستی کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جسے ہرمحب وطن ہندوستانی جاننے کا خواہش مند ہے۔
 
فریڈم فایٹرس ایسو سی ایشن کی پہل پر مجاہد آزادی چودھری اچاریہ نے تیلگو زبان میں سفرانی پر ایک کتاب لکھی ہے- کتاب میں ان کی زندگی سے متعلق متعدد معلومات کو جمع کیا گیا ہے- وہی وہ کتاب ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جے ہند کا نعرہ عابد حسن سفرانی کی اختراع ہے، جسے بعد میں سبھاش چندر بوس نے آزاد ہند فوج کے لئے منتخب کر لیا- نیتا جی نے ا س نعرے کو عوام کے جذبے کوآزادی کے لئے بیدارکرنے کا ذریعہ بنایا- یہ اتنا مقبول ہوا کہ پنڈت نہرو اور مہاتما گاندھی سمیت تمام معروف رہنماؤں نے بھی اسے اپنا لیا- آج بھی اس نعرے کی تاثیر پہلے جیسی ہے- ملک کا محب وطن شہری اس نعرے کو لگا کرخود کے ہندوستانی ہونے پرفخر کرتا ہے- نعرے کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ  ملک میں زبان، مذھب، اور ثقافت کے نام پر نفرت پھیلانے والے تنگ نظرسیاست دانوں کو بھی اس پر عتراض نہیں ہےچودھری اچاریہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سفرانی صاحب نے یہ نعرہ فری انڈیا سنٹرس کے پہلے اجلاس میں تجویز کیا تھا- یہ اجلاس 1941میں ہندوستان کی حصول آزادی کے سلسلے میں برلن میں منعقد کیا گیا تھا- سبھاش چندر بوس کو یہ نعرہ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے ہمیشہ کے لئے اسے اپنا لیا- وہ نیتا جی کے قریبی ساتھی کی حیثیت سے آخری وقت تک ان کے ساتھ رہے-وہ نیتا جی کے جرمنی کے ان کے آخری سفرمیں بھی ساتھ تھے- اس سفر کی روداد نیتا جی کےبھتیجے سیسرکمار بوس کی کتاب ''آئی ان اے ان انڈیا ٹوڈے'' میں محفوظ ہے
 
عابد حسن سفرانی کی پیدائش 1912  حیدرآباد میں ایک محب وطن خاندان میں ہوئی تھی- سفرانی  انجینیرنگ کی پڑھائی امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے برلن چلے گئے تھے- اپنے برلن قیام کے دوران ہی آزاد ہند فوج سے متاثر ہوکر اس میں شمولیت اختیار کر لی- ان کی قائدانہ صلاحیت سے نیتا جی بھی خاصے متاثر تھے- ان کی صلاحیتوں کو پہچان کر نیتا جی نے تنظیم کی اہم ذمہ داریاں ان کے سپرد کیں - سفرانی حیرت انگیز طور پر اپنی مادری زبان کے علاوہ انگریزی، جرمن، فرانسیسی، عربی، فارسی، سنسکرت، ہندی، تیلگو، اردو، پنجابی سمیت متعدد زبانوں میں روانی کے ساتھ گفتگوکرتے تھے-
عابد حسن سفرانی کو آزاد ہند فوج کی گاندھی بریگیڈ کی کمان بھی دی گیی- امپھا ل میں برطانوی فوج کے سامنے سرینڈر کرنے کے بعد انہیں ایک ایسی جگہ رکھا گیا جہاں روشنی کے لئے کھڑکی تک نہیں تھی- اس   بات کا کر انہوں نے خود اپنی ماں کو لکھے گئے خط میں کیا ہے
سفرانی کی والدہ کا رتبہ
عابد حسن سفرانی کے والد ظفر حسن حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی کے ڈین تھے- عابد حسن سفرانی صاحب کی والدہ بیگم امیر حسن سخت گیر گاندھی وادی تھیں - انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں عابد حسن اور بدرالحسن کو حب الوطنی کی گھٹی پلائی- خاندان کے تمام افراد مہاتما گاندھی کے قریبی رفقاء میں شامل تھے- 1925 میں مہاتما گاندھی کی کتاب ''ینگ انڈیا'' کی ایڈیٹنگ کرنے والے بدرالحسن لکھتے ہیں کہ جب بھی حسن کا خاندان گاندھی جی سے ملنے سابرمتی آشرم آتا تھا، گاندھی جی کے سیکرٹری پیارے لال خود ان کا استقبال کرنے ریلوے اسٹیشن جاتے تھے- ان کی والدہ آخری وقت تک راسخ العقیدہ گاندھی وادی اصولوں پر کاربند رہیں - وہ کھادی کے کپڑے پہنتی تھیں اور ایک چھوٹے سے کمرے میں سادگی کے ساتھ رہتی تھیں - ان کی والدہ بیگم امیر حسن سفرانی نے اپنی آبائی جائیداد مجاہدین آزادی کی فلاح اور بہبود کے لئے وقف کر دی- وہ ہندوستان کی بلبل کے لقب سے معروف سروجنی نائیڈو کی دوست تھیں - انھیں گاندھی، نہرو، نیتاجی اور ابوالکلام آزاد پیار سے اماں جان بلاتے تھے- آج بھی حیدرآباد کے ٹرمپ بازار میں ''عابد منزل'' کے نام سے ان کا آبائی گھر موجود ہے- گاندھی جی کی درخواست پر غیر ملکی کپڑوں کو جلانے کی تحریک کا آغاز یہیں سے ہوا-
جب نہرو کو دیکھ کر بولے جے ہند
نیتاجی کے بھتیجے شیشیرکمار بوس نے اپنی کتاب میں نیتا جی سبھاش چندر بوس اور عابد حسن سفرانی کے دوروں کا ذکر کیا ہے جن میں ان کے جرمنی کے سفر، آبددوزوں اورامپھا ل کے جنگلوں کے تجربات شامل ہیں - دوسری جنگ عظیم کے بعد سفرانی کو چھ سال کی سزا ہو گئی- ان کی والدہ اس خدشے سے مضطرب تھیں کہ کہیں ان کو لال قلعے مقدمے میں موت کی سزا نہ ہو جائے-
واضح رہے کہ آزاد ہند فوج کے متعدد جوانوں کو جنگ آزادی کے دوران گولیاں کھانی پڑیں تھیں - بیگم امیر حسن اپنے بیٹے کو بچانے کے لئے گاندھی، نہرو اور سروجنی نائیڈو سے بھی ملیں - بعد میں نہرو اور گورنر جنرل ماونٹ بیٹن کی مداخلت کے بعد بری کر دیا گیا- اس سے پہلے پنڈت نہرو نے سنگا پور کی ایک جیل کا دورہ کیا تھا، جہاں آزاد ہند فوج کے لوگ رکھے گیے تھے-اس دوران انہوں نے ایک شخص کو تنہا بیٹھے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ کیا آپ حیدرباد سے ہیں - اس شخص نے جواب میں جے ہند کے نعرے سے نہرو کی کا استقبال کیا۔
غیر ممالک میں ہندوستان نے ہندوستان کی عزت بڑھائی
جیل سے رہائی کے بعد سفرانی کی طبیعت ناساز رہنے لگی- اس وقت ان کی حیدرباد کی رہائش گاہ پر بنکٹ چندرا، ایلزبتھ اور سی ایس واسو جیسے دوستوں نے خوب تیمارداری کی- صحت یاب ہونے کی بعد انہوں نے اپنا خود کا کاروبار کرنے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہو سکے- اس کی بعد وہ مقابلے کی امتحان میں بیٹھے اور کامیاب ہو گیے- ان کا انٹرویو خود وزیر اعظم پنڈت نہرو نے کیا تھا- وزارت خارجہ میں اپنے طویل کیریئر کے دوران انہوں نے مصر، عراق، ترکی، سینیگال، گیمبیا اورآئیوری کوسٹ جیسے ممالک میں ہندوستانی مشن کو آگے بڑھایا-  جب وہ عراق میں ہندوستان کے سفیر تھے تو اردن کی بادشاہ ہاشم الفضل کا قتل کر دیا گیا- اس دوران وہ بغداد میں نہیں تھے- اس کی وجہ سے انہیں  نکتہ چینی کا بھی سامنا کرنا پڑا
                                                               قومی یکجہتی کی امین
سفرانی کو کھیتی اور باغبانی سے بڑا لگاؤ تھا- ریٹائرمنٹ کی بعد انہوں نے گو لکنڈہ میں باغبانی فارم قایم کیا- وہ نیتا جی کے گھر کا ہر سال انکی سالگرہ کی موقعے پر دورہ بھی کرتے تھے- اس دوران وہ تحفے کی طور پر اپنے ساتھ فارم میں اگے ہوئے پھل اور سبزیاں بھی لے جایا کرتے تھے- اپنے مرشد نیتا جی کو یاد کرنے کا ان کا اپنا منفرد انداز تھا- و- جب تک وہ حیات رہے، ملک کی بہتری کی لئے قومی یکجہتی کے فروغ پر زور دیتے رہے- ان کی بھتیجی گولکنڈہ  میں ان    کے نام سے ایک اسکول بھی چلاتی ہیں-
 قصےاور بھی ہیں
جنگ آزادی پرلکھی جانے والی متعدد کتابوں میں عابد حسن سفرانی کی زندگی سے متعلق اور بھی بہت سی پرتیں کھلتی ہیں۔تاریخ داں نصیراحمد اپنی کتاب‘دی یمورتل’میں لکھتے ہیں،“ سبھاش چندر بوس کو سب سے پہلے سفرانی نے ہی نیتا جی کہا تھا۔ اس کے بعد یہ اتنا مقبول ہوا کہ ہر کوئی انھیں اسی نام سے جاننے لگا۔اسی  طرح مصنف نریندر لوتھراپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ عوام اور آزاد ہند فوج کے استقبال کے لئے نعرہ لکھنے کی ذمہ داری سفرانی کو دی گئی۔ انہوں نے سب سے پہلے ہیلو  لفظ تجویز کیا جس پر نیتا جی ناراض ہوگئے۔ اس کے بعد جئے ہند کا نعرہ دیا گیا جو آج تک مقبول ہے۔ ان کے بارے میں ایک اور دلچسپ  قصّہ بیان کیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ فوج کے جھنڈے میں رنگ کے انتخاب کی بات آئی توہندو فوجیوں نے بھگووا رنگ کے پیروی کی۔ جبکہ مسلمانوں نے ہرے رنگ کے استعمال پر زور دیا۔ اس کے بعد ہندو فوجیوں نے اپنا مطالبہ واپس لے لیا۔ سفرانی صاحب کے دل پر اس بات کا گہرا اثر ہوا۔ انہوں نے ہندو فوجیوں کے جذبات کے احترام میں اپنے نام کے ساتھ لاحقہ کے طور پر سفرانی جوڑ لیا۔ آپ کا اصلی نام زین العابدین تھا۔