زندگی میں کسی سکندر کا ہونا کتنا ضروری ہے ؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-05-2021
کورونا دور میں آخری رسومات ادا کرنا بھی ایک چیلنج بن گیا ہے
کورونا دور میں آخری رسومات ادا کرنا بھی ایک چیلنج بن گیا ہے

 

 

 نئی دہلی

کورونا کے اس آزمائشی دور میں عزیزوں کے فوت ہونے کی دل سوز خبروں کا دور دورہ ہے ۔ مہلوکین کے عزیز و اقارب کی چیخیں ملک کے کونے کونے سے آ رہی ہیں۔ کورونا کی دوسری لہر نے ہم سب کو موت کے انتہائی قریب کر دیا ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی عزیز ، دوست ، رشتے دار یا پڑوسی کے انتقال کی خبر سننے کو ملتی ہے۔ کورونا اور اس کے اثرات نے موت کے سائے کے روپ میں ہمارے وجود کو اس طرح متاثر کیا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ ہمارے خدا پر ایمان کو مزید پختہ کر دے ۔ بہرحال یہ بات تو روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیی کہ انسانوں پر قدرتی قوتوں کا مکمل کنٹرول ہے۔ خوف اور گھبراہٹ شدید بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ دوائیوں کی عدم فراہمی ، آکسیجن یا اسپتال کے بستر جیسی بنیادی چیزوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے پیدا ہوئے  ۔ دارالحکومت دہلی میں  صحت کے  نظام کا منہدم ہو جانا لوگوں کے لئے خاصا پریشان کن تھا ۔ پوری دنیا میں وبائی امراض تباہ کن اور چیلنجنگ ہوتے ہیں ، لیکن ہمارے معاملے میں کووڈ کی پہلی لہر کے خلاف ہماری کامیابی نے دوسرے حملے سے نمٹنے میں ہماری ناکامی کے تناسب کو بڑھا دیا ہے۔ کون ناکام رہا؟ مرکزی حکومت ، ریاستی حکومت ، صحت کا نظام ، ہمارے بیوروکریٹس یا عوام خود؟

یہ قابل بحث سوال ہے۔ لیکن یہ ایک متفقہ امر ہے کہ ہم ہندوستانی جان بچانے اور وائرس کے حملے کو کم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب جب کہ حالات معمول پر آر ہے ہیں تو ہم سب کا فرض ہے کہ امید افزاء اور مخیر افراد کی گراں قدر خدمات کی داستانیں عام کی جاییں جس سے ہمیں خود پر اور اپنے ملک ہندوستان پر دوبارہ اعتماد قائم کرنے میں مدد مل سکے ۔

کچھ اسی نوعیت کی ایک کہانی قارئین کے سامنے پیش کی جا رہی ہے۔ اس کی شروعات تقریبا 30 سے 35 سال پہلے ہوتی ہے جب میرے دوست اور ریٹائرڈ میجر جنرل وویک شرما کے والد ، جو سرکاری ملازم تھے ، نے مشرقی دہلی میں اپنا مکان خریدا ۔ پچھلے 35 سالوں میں کالونی میں اپنی رہائش کے دوران انہوں نے بہت سے دوست اور جاننے والے بنائے۔ ان میں سے ایک مسٹر سکندر خان تھے ، جو پیشے سے الیکٹریشن تھے۔ سکندر ایک چھوٹے موٹے کاریگر تھے جنہوں نے آہستہ آہستہ کالونی میں بجلی کا ایک چھوٹا کاروبار اور ایک ٹینٹ ہاؤس کھولا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ، سکندر نے اپنے کاروبار میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اپنے بچوں کو تعلیم دی ، ان میں سے ایک ڈاکٹر بن گیا۔ اس عرصے میں ، شرما خاندان سے اس کے تعلقات میں بھی اضافہ ہوا۔ پیشہ ورانہ خدمات فراہم کرنے سے پیدا ہونے والے تعلقات دوستی میں بدل گیے ۔

 ویویک شرما کو 1979 میں ہی پونے کے آرمڈ فورسز میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے گھر چھوڑنا پڑا - وہ بعد میں دسمبر 2019 میں لکھنؤ سے بطور جنرل ریٹائر ہوئے ۔ انہوں نے پورے ملک میں خدمات انجام دیں اور مشکل سے ہی کبھی دہلی میں قیام کیا ۔ اس کے والدین کا اپنے گھریلو عملے ، ایک نیپالی جوڑے (گنگا اور اس کے شوہر دھن سنگھ) کے ساتھ مشرقی دہلی میں قیام جاری رہا ۔ یہ جوڑا پچھلے 30 سالوں سے ان کے ساتھ ہے۔ در حقیقت ، کچھ سال پہلے جب ویویک شرما کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا ، تو ان کے والد نے پونے شفٹ ہونے سے انکار کردیا تھا اور اپنے دوستوں ، پڑوسیوں اور یقینا گنگا اور دھن سنگھ کے بیچ اپنے گھر میں ہی رہنے پر اصرار کیا ۔ اس سال 22 اپریل کو کورونا نے شرما خاندان پر حملہ کیا۔ پہلے تو اس نے گنگا اور اس کے شوہر کو لپیٹے میں لیا۔ تاہم ، انہوں نے ہلکے بخار اور کھانسی پر قابو پالیا۔ لیکن جب ان کی صحت یاب ہوئی تو وہ وائرس مسٹر شرما پر حملہ ور ہوا ۔ بخار کی شدت بڑھنے پر ان کا بیٹا پونے سے دہلی آ گیا۔ اس وقت ، اسپتالوں میں بیڈ ، آکسیجن اور دیگر سہولیات کا بحران تھا - ڈاکٹر ہونے کے ناطے اسپتال کے خوفناک حالات کا مناسب ادراک رکھنے والے فرزند نے اپنے والد کا گھرپر ہی علاج کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ خوش قسمت تھے کہ ان کے ایک دوست نے انہیں آکسیجن کنسنتریٹر دستیاب کرایا جو مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب نہیں تھا۔ تمام تر دیکھ بھال کے باوجود ان کے بوڑھے والد نے 02 مئی 2021 کو دنیا چھوڑ دی ۔

اب چیلنج تھا آخری رسومات ادا کرنے کا - گھریلو خادم اور ایک کزن جو سہارنپور سے آ ئے تھے ، کے علاوہ ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ پڑوسی آئے تو تھے لیکن کورونا کی وجہ سے وہ سب چلے گیے ۔ اس وقت ایک ایسا شخص آگے آیا جو نہ تو ہمسایہ تھا نہ ہی رشتہ دار بلکہ ایک شناسا تھا ، جس کانام تھا سکندر خان, جس آخری رسومات کا بندوبست کیا ، اور کفن پہنانے کے بعد آخری سفر کے لئے کندھا بھی دیا ۔

مسٹر شرما کی آخری رسومات ان کے بیٹے ، ان کے بھتیجے ، بوڑھے گھریلو ملازم ، اور یقینا سکندر خان نے ادا کیں۔ جیسا کہ جنرل شرما نے ٹھیک کہا ہے ، "میرے والد خوش قسمت تھے کہ سکندر جیسا اچھا دوست انہیں ملا ، جو انتہائی مشکل وقت میں اپنے ذاتی مفاد کے لالچ کے بغیر میری مدد کے لئے آگے بڑھا۔" ان کا آخری تبصرہ ہے کہ ہم سب کو اپنی زندگی میں کسی ایک سکندر کی ضرورت ہے ۔

میجر جنرل ویوک شرما (ریٹائرڈ) نے 1984 سے لے کر 2019 تک ہندوستانی فوج میں خدمات انجام دی ہیں اور اب وہ پونے میں مقیم ہیں۔ مصنف نے اپنے ذاتی تجربے کو قلم بند کیا ہے ۔ ۔