فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال - دروازہ جھنگہ مودی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-03-2021
 دروازہ جھنگہ مودی
دروازہ جھنگہ مودی

 

 

فیضان خان / آگرہ

متنوع ثقافت اور متعدد مذاہب کے درمیان غیر معمولی ہم آہنگی کی امین رہی سرزمین ہندوستان آزادی کے بعد ایک منفرد بد قسمتی کا شکار ہو گئی ہے۔ تقدیر کی یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ وطن عزیز کبھی مندروں اور مساجد کے نام پر جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے تو کبھی اسے فرقہ وارانہ فسادات کی تکلیف دہ بدنامی سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔

ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنے والے عناصر کو آگرہ کے لوہامنڈی میں واقع چھنگہ مودی کے دروازے سے سیکھنا چاہئے۔ اس مخلوط آبادی والے علاقے میں کبھی بھی فرقہ وارانہ تناؤ پیدا نہیں ہوتا ہے۔ اس دروازے کے ایک ستون پر مندر ہے جبکہ دوسرے ستون پر مقبرہ۔ یہاں کے لوگ نہ صرف ایک دوسرے کے سماجی ، بلکہ مذہبی پروگراموں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر کبھی کوئی تنازعہ پیدا نہیں ہوا ۔ ایک طرف ہنومان چالیسہ کا پاتھ ہوتا ہے ، دوسری طرف قرآن کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں۔

محبت اور بھائی چارے کا پیغام

سر کی منڈی کے رہائشی شوکت علی کا کہنا ہے کہ جب 1992 میں بابری کو مسمار کیا گیا تھا تو پورے ملک میں آگ لگی ہوئی تھی۔ تب یہاں کے لوگ بھائی چارے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔ یہاں کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔ پل کے ایک طرف جہاں مزار ہے تو دوسری جانب مندر، جو لوگوں کو محبت اور بھائی چارے کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔

 شوکت علی

فسادات میں بھی یکجہتی کا ثبوت دیا

لوہامنڈی کے رہائشی سپن بنسل نے کہا کہ ملک میں متعدد مرتبہ بڑے بڑے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں۔ جب لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے تب یہاں کے لوگ بڑی محبت سے ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے۔ لوگوں نے کہا کہ ہم چند غیر سماجی عناصر کی وجہ سے اپنی ہم آہنگی کو برباد نہیں ہونے دیں گے ۔

سپن بنسل

کسی بھی مذہب میں کوئی فرق نہیں ہے

باغ رام سہاۓ کے رہائشی روہت سریواستو نے بتایا کہ اس علاقے کے لوگ بڑے پیار سے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ بھی ان مندر اور مزار کی وجہ سے۔ ہم مندر میں پوجا کے لئے جاتے ہیں اور مزار پر چراغ بھی جلاتے ہیں۔ ہم مذاہب کے درمیان فرق کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔

تمام فسادات سیاستدانوں اور غیر سماجی عناصر کی وجہ سے

پل جھنگہ مودی کے رہائشی عاقب خان کہتے ہیں کہ مٹھی بھر سیاستدانوں اور کچھ انتشار پھیلانے والے عناصر کی وجہ سے ہم ہندو مسلم تنازعہ میں پھنسے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہمارے اس گیٹ سے سیکھنا چاہئے۔ یہاں مذہب کی دیواریں ٹوٹ جاتی ہیں ۔ ایک ہی سائٹ پر بنائے گئے دونوں مذہبی مقامات پر کبھی تنازعہ نہیں ہوا ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اگر ہم بھنڈارے میں شامل ہوتے ہیں تو ہندو بھی عرس میں شامل ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔

گیٹ اسلام شاہ نے بنوایا تھا

تاریخ نگار راجیو سکسینہ بتاتے ہیں کہ آگرہ کی سلامتی کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلم حکمران شیر شاہ سوری کے بیٹے اسلام شاہ نے 16 گیٹ بنوائے تھے ، لیکن دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے آج صرف دو دروازے ہی باقی بچے ہیں۔ ایک ہریپروت کے قریب بنا گیٹ ہے جبکہ دوسرا لوہامنڈی جھنگہ مودی پل ۔ اے ایس آئی اس تاریخی عمارت کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی ہے۔ اس تاریخی عمارت کو صرف علاقائی عوام کی کاوشوں نے ہی بچا رکھا ہے ۔اس دروازے کی تزئین و آرائش کا کام جے پور کے راجہ جئے سنگھ نے سن 1721 میں کرایا تھا ۔

عاشق تو قلندر ہے ، ہندو نہ مسلماں

علاقائی رہائشی اور کانگریس کے سابق ضلع صدر دنیش بابو شرما نے کہا کہ ہمارے آگرہ کو امن کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ ایک دوسرے سے محبت کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہر مذہب کے لوگ دروزہ جھنگہ مودی پر تعمیر کیے گئے مندر اور مزار میں زیارت کے لئے آتے ہیں ۔ اگر اے ایس آئی توجہ دے تو یہ گیٹ اور بھی زیادہ شاندار نظر آسکتا ہے ، لیکن حکومت کی طرف سے اس کا کبھی نوٹس نہیں لیا گیا ہے اور نہ ہی اے ایس آئی اس طرف توجہ دے رہی ہے۔ مندر اور مزار کی وجہ سے یہاں کے لوگ اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں اس وجہ سے یہ بچ گیا ہے۔