چنامیاں مندر:جس کی بنیادقومی یکجہتی پررکھی گئی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-04-2021
چنامیاں مندر
چنامیاں مندر

 

 

اس مندرکی تعمیرفضل الرحمان عرف چنامیاں نے کرائی۔

چنامیاں نے زمین اور پیسے دیئے۔

چنامیاں نے مندرکی تعمیرکے لئے سرپرپتھراٹھائے۔

بریلی کے رئیس تھے چنامیاں

آج بھی مندرسے جڑاہواہے چنامیاں کا خاندان

مندرکاافتتاح اولین صدرجمہوریہ نے کیا

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

قومی یکجہتی،کچھ لوگوں کے لئے نظریہ ہوسکتاہے مگرفضل الرحمان عرف چنا میاں کے لئے یہ ایمان کا درجہ رکھتاتھا۔ یہی سبب کہ انھوں نے ایک خطیر رقم خرچ کرکے اپنی زمین پرایک مندرتعمیر کرایا۔ یوں تو اسے لکشمی نارائن مندرکا نام دیاگیا ہے مگرحقیقت میں یہ قومی یکجتی کا مندرہے۔ یہ مندر ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ بھی ہے جوہندو،مسلم اتحاد میں یقین نہیں رکھتے اوربھولے بھالے عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کرکے اپنا الو سیدھا کرنے میں لگے رہتے ہیں

چنامیاں نے مندرکے لئے کھولاخزانے کا منہ

بریلی کا مشہور لکشمی نارائن مندر ہندوؤں کے لئے عقیدت کا مرکز ہے تو مسلمانوں کے لئے یکجہتی کی علامت اور دیش کے شہریوں کے لئے گنگاجمنی تہذیب کی ایک خوبصورت مثال۔ ہندوستان، مندروں کاملک ہے اور اس کے طول وعرض میں بہت سارے مندر ہیں جو سناتن دھرم کی ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان سب میں لکشمی نارائن مندر، خاص اہمیت کا حامل ہے۔

اس مندرکی خاصیت یہ ہے کہ تمام مندروں کی تعمیر ہندوکراتے ہیں مگر اس کی تعمیرفضل الرحمان عرف چنامیاں نے کرائی تھی۔ جس مقام پر مندر واقع ہے، اس کی ملکیت چنامیاں کی تھی اور اس کے بعداس کی تعمیر کے لئے انھوں نے اپنےخزانہ کا منہ کھول دیاتھا۔ یہ مندر بریلی کے کٹرا مان رائے بڑے بازار میں واقع ہے۔


ہندوستانی رنگ

اس مندر کوخصوصی ہندوستانی رنگ دینے کے لئے اس کے داخلی دروازے پر اشوکا کی علامت شیرکا چہرہ بنایاگیا ہے ، جو عام طور پر ملک کے کسی بھی مندر میں نظر نہیں آتا ہے۔

مندرمیں داخل ہونے کادروازہ

بریلی کے چاچاچنامیاں

فضل الرحمان کوعلاقے میں چاچا چنا میاں کے نام سے شہرت حاصل تھی۔ وہ بریلی کے ایک بڑے سیٹھ تھے۔ چنا میاں نے نہ صرف اس لکشمی نارائن مندر کے لئے چندہ دیا بلکہ دوسرے مندروں کو بھی ، انہوں نے عطیات دیئے۔ مشہور ہری مندر میں رادھا کرشنا کی مورتیاں لگوانے کے لئےعطیہ دیاتھا ، جب کہ مشہور شیو مندر دھوپیشورناتھ میں چنا میاں نے عقیدت مندوں کے لئے ٹیوب ویل لگوایا تھا۔ مقامی لوگوں کے مطابق چنامیاں نے مندر،گردوارے اور اسکول کالج بنوانے کے لئے پوری زندگی پیسے دیتے رہے۔ انھوں نے کئی کالج واسکول بنوائے یا تعمیر میں حصہ لیا۔ ایسے کالجوں میں شامل ہے بریلی شہر کا اسلامیہ انٹر کالج ، بریلی کالج کا 'کامرس بلاک' گلی منیہاران کا گرودوارہ وغیرہ۔ انھوں نے مرادآباد ضلع میں بھی ایک اسکول قائم کیاتھا۔

کرشن جنم اشٹمی پرپیداہوئے تھے

چنا میاں کی پیدائش 1889 میں کرشنا جنم اشٹمی کے دن بریلی میں ہوئی تھیں۔ ان کے والد کا انتقال تب ہوگیا جب وہ 7-8 سال کے تھے۔ کچھ سال بعد ، ماں کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ایسے میں چنا میاں بچپن سے ہی زندگی کو بہتربنانے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ اس بیچ ان کی ملاقات سیٹھ گلزاری لعل عرف دتاسیٹھ سے ہوئی جن کے ہاں،چنا میاں نے نوکری کرلی۔ ایک وقت سیٹھ نے انھیں کچھ پیسے دیئے اور نصیحت کی کہ وہ اس سے کوئی کاروبارکرلیں۔ چنانچہ چنا میاں نے اس سے کچھ سامان خریدااورٹوکری میں رکھ گھوم گھوم کر بیچنے لگے۔ان کاکروبار بڑھتاگیا اور وہ بریلی کے ناموردولت مند افراد میں شمار ہونے لگے۔ انھوں نے شہرکی سب سے بڑی بیڑی کمپنی بھی خریدلی۔

مندرمیں آویزاں فضل الرحمان عرف چنامیاں کی تصویر

کیسے بنامندر؟

ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعد ، جب پنجابی برادری کے کچھ افراد، پاکستان سے بریلی آکر آباد ہوئے تو ان کے پاس پوجاپاٹھ کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی ، جہاں انھوں نے رہائش کے لئے چھوٹے چھوٹے کمرے بنائےتھے،انھیں کے پاس چنا میاں کی خالی زمین تھی۔ پنجابی سماج کے لوگ چاہتے تھے کہ خالی زمین پر مندربنائیں اور اس معاملے کو لے کرعدالت بھی گئے۔ایسے میں چنا میاں خود آگے بڑھے اور مندر کے لئے نہ صرف زمین کا عطیہ دیا بلکہ اس مقدمہ میں جومدعیوں کے اخراجات ہوئے تھے،انھیں دیئے اور مندر کی تعمیر کے لئے موٹی رقم بھی دی۔

مورتی لانے گئے جے پور

چنامیاں کے پوتے شمس الرحمن اور نجم الرحمن نے بتایا کہ ان کے دادا خود مندر کے لئے شری لکشمی نارائن کی مورتیاں لینے جے پور گئے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا تھا کہ کوئی دوسراشخص اس مندر کے لئے ان سے بہتر ، خوبصورت اصلی سنگ مرمر کی مورتیاں شناخت نہیں کر سکے گا۔ ایسے میں وہ خودگئے اور جے پور سے مورتیاں لے کرآئے اور مندر میں نصب کیا۔

صدر نے افتتاح کیا

جب مندرتیارہوگیاتو 16 مئی 1960 کوچنا میاں نے اس وقت کے صدرجمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد کو بلاکراس کا افتتاح کرایا۔ اس کے بعد سناتن دھرم پنجابی فرنٹیئر سبھا رجسٹرڈ ہوئی اور اس کے لئے 20،700 روپے بھی چنامیاں نے دئیے۔

ڈاکٹرراجندرپرساد جنھوں نے مندرکاافتتاح کیا

چنامیاں کی تصویر

مندرکی تعمیر میں چنامیاں نے خود محنت کیاتھا۔ انھوں نے زمین اور پیسے دینے کے علاوہ اپنے سرپرمٹی اور پتھرڈھوئے تھے لہٰذا اسی کیفیت میں ان کی تصویربھی مندر میں آویزاں کی گئی ہے۔ کسی ہندومندر میں کسی میاں کی تصویرصرف یہیں دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ چنا میاں اب اس دنیا میں نہیں ہیں ، لیکن ان کا کنبہ اب بھی مندر سے جڑا ہوا ہے۔ان کے پوتے پوتیاں اب بھی یہاں آکر مندر کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔

راجیہ سبھاسیٹ ٹھکرائی

اہم بات یہ ہے کہ اس دورکے ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے جب ان کے بارے میں سنا تو خوش ہوئے اور اپنے بریلی دورے کے دوران ان کے سامنے راجیہ سبھا بھیجنے کی پیشکش کی مگرچنامیاں نے اس پیش کش کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرادیا کہ انھوں نے غریبی سے نکل کربہت دولت حاصل کی ہے۔وہ خواہ مخواہ اس ذلت میں پھنسنا نہیں چاہتے ہیں۔

چنا میاں کے پوتے شمس الرحمان بتاتے ہیں کہ چنا میاں نے کہا کہ اس کے لئے اترپردیش کے کسی اور شکارکی گردن ڈھونڈی جائے۔ ان کے زبان سے یہ الفاظ سن کرنہروسمیت تمام حاضرین ہنس پڑے تھے۔

پوتابھی داداکی راہ پر

ان کے پوتے شمش الرحمان کے مطابق ، وہ زندگی کے آخری ایام میں چنا میاں کے بہت قریب رہے ،انھوں نے کہا کہ دادا نے لکشمی نارائن مندر تعمیر کرایا شاید اسی لئے ہماری سوچ بدل گئی۔ میں نے وشنو دیوی کے درشن کئے ہیں۔میں جب بھی کسی مندر، گردوارے کے سامنے سے گزرتا ہوں ، تو خود بخود ہاتھ گاڑی میں چلنے والے اسٹیریو کو بند کرنے کے لئے اٹھ جاتا ہے۔

خاکسارتھے چنامیاں

چنا میاں کی پوتی طلعت پروین شمسی نے دادکے بارے میں بتایاکہ ، گھر کے دروازے پرخواہ کوئی دستک دے ، چاہے وہ چھوٹا ہویا بڑا،دن ہو یا رات۔ دسمبر کی سردی ہو یا جون کی شدید گرمی… انھوں نے ہمیشہ گھر کی کنڈی کھولنے کی کوشش کی۔ ان کے منہ سے ، 'کون صاحب ... آیا حضور.. جی سر' سب کے لئے نکلتاتھا۔

آخری وقت

آخری وقت میں جب وہ اسپتال میں داخل تھے ، انہوں نے گھر کے لوگوں سے کہا میں عید کے دو دن بعدوفات پا جاؤں گا اور ایسا ہی ہوا۔ گنگا - جمنی تہذیب کا یہ چوکیدار 23 دسمبر 1968 کوصبح تین سے چار بجے کے درمیان دنیا سے رخصت ہوا۔