شیف پرتیک ماتھر:تاریخ کے صفحات اور نظام کے باورچی خانے میں گمشدہ پکوانوں کی تلاش

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 07-10-2023
شیف پرتیک ماتھر:تاریخ کے صفحات اور نظام کے باورچی خانے میں گمشدہ پکوانوں کی تلاش
شیف پرتیک ماتھر:تاریخ کے صفحات اور نظام کے باورچی خانے میں گمشدہ پکوانوں کی تلاش

 



رتنا جی چوترانی/حیدرآباد

حیدر آباد کی اپنی سیاحتی چمک ہے، ساتھ ہی اس کی ایک ثقافت ہے نیز یہ روایتی کھانوں کو بھی محفوظ رکھتا ہے۔ کھانوں پر مغلائی ترک اور عربی کا دیرینہ اثر ہے۔ یہ شہر اپنی مخصوص ثقافت، لاتعداد روایات، فنکارانہ طریقوں اور سب سے اہم کھانے کے لیے جانا جاتا ہے۔ حیدرآباد کا کھانا دنیا بھر میں بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ خواہ وہ مشہور حیدرآبادی کچے گوشت کی بریانی ہو یا پتھر کا گوشت اور بہت کچھ ۔ بہت سے پکوان ہیں جن پر حیدرآباد فخر کرتا ہے ان کے پیچھے ایک بھرپور تاریخ ہے اور یہ سینکڑوں سالوں میں تیار ہوئی ہیں۔ حیدرآبادی کھانوں کا بیشتر حصہ اپنے چاول، گندم کے گوشت، اور مسالے پر مبنی پکوانوں کے لیے جانا جاتا ہے جو انتہائی نفاست سے تیار کیے جاتے ہیں۔

حیدرآباد میں پہلی بار آنے والوں کو بریانی اور ایرانی چائے سے لطف اندوز کیا جاسکتا ہے لیکن حیدرآبادی کھانوں میں اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے۔ کوئی یہ کہ نہیں سکتا کہ حیدرآباد میں اچھی بریانی نہیں ملتی ہے۔ فرانسیسی، عربی، ترکی، ایرانی، اور مقامی تیلگو اور مراتھواڑہ کھانوں کے اثر و رسوخ کے ساتھ یونیسکو کے ذریعہ اسے ایک تخلیقی شہر کے طور پر درج کیا گیا ہے، بہت سے پکوان وقت کے ساتھ ضائع ہوچکے ہیں، اور ایسا ہی ایک کھانا توتک ہے جسے گزرتے وقت کے ساتھ فراموش کردیا گیا ہے۔ لیکن بینکر سے شیف بننے والے پرتیک ماتھر نے کھانوں کی روایت کو دوبارہ دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔

awaz

پرتیک ماتھر نے ان کھانوں کا پتہ لگایا جو تاریخ کے صفحات میں گم ہوچکے تھے۔ یہ ترکیبیں اب کک بک میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے کھانوں کی اصل ترکیبوں کو زماں ومکاں سے ماوریٰ ہوکر محسوس کرنے کی کوشش کی۔ ایسی ترکیبوں کو دوبارہ زندہ کرنے میں دلچسپی کے سبب ، انہوں نے پرتیک مارتھر کیٹررس شروع کیا۔ انہوں نے حیدرآباد کے ماضی کی پرانی ترکیبیں اکٹھی کی ہیں جو ہمیں آج کی مقبول ڈشیز بریانی، کباب ،حلیم، اور قورموں سے آگے لے جاتی ہیں۔ کائستھ ایک تعلیم یافتہ برادری تھی جس نے اپنی فارسی دانی کے سبب خود کو مغل انتظامیہ کے لیے قابل قدر بنا یا تھا۔ لہٰذا یہ لوگ مغل انتظامیہ کے لیے ناگزیر تھے کیونکہ یہ سب سے پہلے فارسی کی باریکیوں کا پتہ لگانے والوں میں شامل تھے جب علاؤالدین خلجی نے برصغیر میں اپنا قدم بڑھایا۔

کائستھ، جو نظام کی عدالتوں میں ریکارڈ کے رکھوالے اور منتظم تھے، شہر کے کھانوں پر بھی اپنی چھاپ رکھتے تھے۔ کائستھ نے ایک خوبصورت مثال قائم کی ہے۔ کائستھ نے بڑی مہارت سے اپنی روایات کو مغلئی کھانوں کی لذت سے ہم آہنگ کرنے کا کام کیا تھا اور ذائقہ کی مدد سے نظام حکمرانوں کے دلتک پہنچے۔ پرتیک بھی نظام کے کچن کے کھوئے ہوئے کھانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ حیدرآباد کے شاہی کچن سے سیدھا ایک لذیذ بھوک بڑھانے والی خوشبودار ڈش لے کر آئے ہیں۔

ایک ڈش ہے"توتک"۔ اس کا نام عجیب لگ سکتا ہے۔ مگر مانا جاتا ہے کہ یہ نام ایک کہاوت کے بعد تیار کیا گیا تھا جو ہے "تو تکتا رہ جائے گا"۔ توتک اس جملے کے پہلے الفاظ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے حیران رہ جانا۔ نظام حیدرآباد کے دکنی خاندان سے تعلق رکھنے والی ڈش ا مہمان کے استقبال کے طور پر پیش کی جاتی تھی۔

اس ایپیٹائزر-کم-ڈیزرٹ میں شارٹ کرسٹ پیسٹری کی طرح ایک سخت بیرونی خول ہے اور اندر سے نرم مادہ بھرا ہے اور اسے خشک میوہ جات اور گوشت کے قیمہ سے بھرا جاتا ہے۔ پیسٹری کا احاطہ سوجی کے ساتھ بنایا جاتا ہے اور اسے بڑی مقدار میں خالص گھی، دودھ اور زعفران کے ساتھ گوندھا جاتا ہے اور پھر چارکول پر سینکا ہوا قیمہ اور خشک میوہ جات سے بھر کر پیش کیا جاتا ہے۔ نظام کا یہ پسندیدہ اسٹارٹر اصل میں ایک ہندو کائستھ برادری سے تھا۔ جب کہ اس وقت یہ مقبول تھا، آج "توتک" مختلف پکوانوں کے بیچ اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں ہے۔ یہ اپنے ذائقہ سے کھانے والوں کو دوبارہ حیران کرنے کا انتظار کر رہا ہے۔

وہ توتک کے علاوہ کشمیری لوز بھی پیش کرتے ہیں جس میں مٹن پکایا جاتا ہے اور پیس لیا جاتا ہے کیونکہ نظام اپنے بوڑھے دانتوں کے لیے کچھ نرم چاہتے تھے۔ مٹن کو پیس کر کیک کی طرح پکایا جاتا ہے۔ گوشت کے ساتھ گھی اور انڈے اس ڈش میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے مینو میں منہ میں پگھلنے والا پتھر کا گوشت بھی ایک ایسی ہی ڈش ہے جس کی جڑیں نظاموں کے شاہی درباروں میں ملتی ہیں۔

ان دنوں یہ حکمران چکن یا کسی دوسرے گوشت پر بھیڑ یا بکرے کے گوشت کو ترجیح دیتے تھے۔ پتھر کا گوشت، ان لوگوں کے لیے جو اس واقعے سے اچھوتے نہیں ہیں، سلیب گوشت کا ایک نمونہ ہے جہاں مسالوں کے ساتھ بھیڑ کے گوشت کو سلیب کے ایک ٹکڑے پر آہستہ سے پکایا جاتا ہے اور اخیر تک بھونا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سیخ کباب، ملائی چکن (نام ملائی کباب سے ملتا جلتا لگتا ہے لیکن طریقہ کار مختلف ہے) انگریز کٹلیٹ بونلیس مٹن سبزیوں کے ساتھ ملا کر تلا ہوا پکایا جاتا ہے۔

awaz

شکم پور رسیلا مٹن بھی پکایا جاتا ہے اور اسے ہری مرچوں، دہی اور پیاز کے قیمہ کے آمیزے سے بھری پیٹیز میں بنایا جاتا ہے۔ قیمہ کی لکمی - قیمہ کو سموسے کے خول میں بھراجاتا ہے اور گہرے تلے ہوئے مٹن نہاری کی پنڈلیوں کو اسٹو کی شکل میں پکایا جاتا ہے جسے خاص مسالوں کے ساتھ دھیمی آنچ پر پکایا جاتا ہے۔ مٹن رین-مٹن کی پوری ٹانگ کو کچھ بہت خاص مسالوں کے ساتھ آہستہ پکایا جاتا ہے۔

ان کے پکوان کھانے والوں کو ذائقے اور نفاست سے خوش کرتے ہیں۔ ان کے پاس آرڈرز بہت زیادہ رہتے ہیں لہٰذا کھانا منگوانے کے لیے پیشگی آرڈر ضروری ہے۔ ان کی مقبولیت اور مصروفیت کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ آپ کو کھانے کے لئے ایک دن پہلے آرڈر دینا پڑتا ہے حالانکہ وہ روزانہ بنائے جاتے ہیں۔ انہیں ڈیلیوری ایپس کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔