کشمیر میں سردیوں کے بادشاہ ,چلہ کلاں, کی شروعات

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 20-12-2022
کشمیر میں سردیوں کے بادشاہ ,چلہ کلاں, کی شروعات
کشمیر میں سردیوں کے بادشاہ ,چلہ کلاں, کی شروعات

 

 

منظور ظہور شاہ : اآواز دی وائس

یوں تو دنیا بھر میں موسم بدلتے رہتے ہیں اور بیشتر ممالک میں سردی اور برفباری ہوتی ہے مگر جہاں تک وادی کشمیر کا تعلق ہے یہاں کلینڈر کے حساب سے سردیوں کا موسم 21 دسمبر سے شروع ہوتاہے اور 40 دن تک چلہ کلاں کے نام سے ایک عرصہ ہوتاہے جس کے دوران دن رات مجموعی طور کڑاکے کی سردی پڑتی ہے ۔پچھلے  زمانے میں جب کشمیر میں ہرے بھرے جنگل اور سرسبز  میدانی علاقوں میں بھی مختلف قسم کے پھل دار اور بغیر پھل دار درختوں کو اگایا جاتاتھا۔

چلہ کلاں کے ایام میں اتنی بھاری برفباری ہوتی تھی کہ لوگ ہفتوں اپنے گھروں میں پڑے رہتے تھے۔ کشمیری عوام کڑاکے کی سردی سے بچنے کےلئےکانگڑیاں  ,کوئلے , سوکھی سبزیاں ,دالیں,ستو ,آٹا اور چاول اسٹور کرتے تھے ۔ اب اتنے گھنے ہرے بھرے جنگل رہے اور نہ سرسبز میدان ۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کا مزاج, رہن سہن اور ضروریات بھی بدل گئیں ۔

روایتی سازوسامان کی جگہ ٹیکنالوجی اور  مشین سے بنے جدید سازوسامان نے لے لیا۔نئی نسل سے جب بزرگ لوگ 30 سال پہلے کے ضرویات زندگی بالخصوص چلہ کلاں کے دوران اپنی زندگی گزارنے اور سردیوں کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے ضروریات کی اشیا کی باتیں کرتے ہیں  تو ان کا مزاق اڑانے سے  بھی گریز نہیں کیا جاتا ہے ۔

تیس چالیس سال قبل کی ہی اگر بات کریں تو کشمیر میں کئی علاقے سردیوں کے ایام میں بھاری برفباری کی وجہ سے ایکدوسرے سے کٹ کر رہ جاتے تھے ۔ عبدلعزیز میر نامی ایک85 سالہ بزرگ نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے اپنے بچپن اور جوانی کے ایام میں موسم سرما اور چلہ کلاں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اس بات میں حقیقت ہے کہ ان دنوں مجموعی طور غربت تھی مگر ہم لوگ جو کھانا کھاتے تھے وہ بناوٹی اور ملاوٹی نہیں ہوتا تھا۔

 

اورآج جیسے  محل نما مکانوں کے بجائے کچی اینٹوں, گارے اور لکڑیوں سے بنے مکانوں میں بودباش کرتے تھے جن میں آج کے سیمنٹ کے مکانوں کے مقابلے میں سردی محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ ہماری خواتین کچن میں لکڑیاں اور گوبر جوکہ گرمیوں میں ہی اسٹور کیا ہوتا تھا ,کو جلاکر نہ صرف کھانا تیار  کرتی تھیں بلکہ روایتی کانگڑیوں میں آگ ڈالتی تھیں ۔اس کے علاوہ کھانے پینے کے تمام ضروریات کا اسٹور گرمیوں میں ہی کیا جاتا تھا۔ عبدلعزیز نے اعتراف کیا کہ اب سہولیات دستیاب ہیں مگر برکتیں اور ذائقہ بہت حد تک ختم ہوا ہے ۔

 کشمیر میں چلہ کلاں کی آمد کے باوجود ان دنوں تعمیراتی کام جاری ہے ۔ شہر سری نگر کے علاوہ مختلف قصبوں اور دیہات میں سرکاری اور نجی عمارتیں تعمیر ہوتی نظر آرہی ہیں  راتوں  کو درجہ حرارت منفی ہونے کے باوجود دن میں دھوپ کھلتی ہے ۔

اس دوران ماہرین موسمیات  نے پیشن گوئی کی ہے  کہ کشمیر میں دسمبر کے اواخر تک کوئی  برفباری نہیں ہوگی ۔مگر سنجیدہ فکر اور تجربہ کار کشمیری بزرگوں کا ماننا ہے کہ برفباری کسی کو پوچھ کر نہیں ہوتی اور چلہ کلاں کی شروعات کے بعد اب ہلکی یا بھاری  برفباری کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔

 چلہ کلاں (کڑاکے کی سردی کا عرصہ)کا یہ عرصہ جو 40 دن کا ہوتاہے21 دسمبر سے شروع ہوکر 31 جنوری کو ختم ہوتاہے جس کے بعدیکم فروری سے چلہ خورد (چھوٹا چلہ) کے نام سے قدرے کم سردی کے 20 دن شروع  ہوکر 20 فروری کو ختم ہوتے ہیں ۔اور آخر پر 20 فروری سے چلہ بچہ کے نام سے مشہور 10 دن کے  عرصہ  کے بعد موسم بہار کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں ۔