عتیقہ بانو کا میراث محل ہیریٹیج میوزیم : نئی زندگی کا طالب

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 07-04-2022
عتیقہ بانو کا میراث محل ہیریٹیج میوزیم : نئی زندگی کا طالب
عتیقہ بانو کا میراث محل ہیریٹیج میوزیم : نئی زندگی کا طالب

 


آواز دی وائس، نئی دہلی 

جموں وکشمیرمیں جن خواتین نے سماجی مسائل سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا جوہر دکھایا اور اپنے فکر و فن سے لوگوں کے لیے کارآمد بنیں، ان میں سے ایک اہم نام ماہرتعلیم اور سماجی کارکن عتیقہ بانو کا ہے، جو عتقیہ جی کے طور پر بھی معروف ہوئیں۔

عتیقہ بانوکی زندگی مختلف مسائل ودشواریوں سے پُر رہی تاہم انہوں نے ہر پریشانی کا مقابلہ زندہ دلی سےکیا۔وہ بڑے ہی مضبوط اعصاب کی مالک تھیں جنہوں نے زندگی کے کسی بھی مرحلے پر ہار تسلیم کی نہ ہی کسی کے سامنے اپنا سر جھکایا بلکہ وہ ہمیشہ ہمت ، حوصلہ اور عزم کے ساتھ آگے ہی بڑھتی رہیں۔ وہ بھی اس ماحول میں جب کہ مردوں کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا تھااور ہر چیز انہیں کے کنٹرول میں تھی۔ عتیقہ بانو 1940ء میں ڈوگرہ راج کے دوران مشہور و معروف شاعر اور مصنف مرحوم حنفی سوپوری کے خاندان کے چشم و چراغ مرحوم مولوی یاسین کے گھر محلہ جامعہ قدیم سوپور(کشمیر) میں پیدا ہوئیں،نام عام کشمیریوں کی طرح’’ عتیقہ بانو،، رکھا گیا۔  اورجب77سال کی عمرمیں4اکتوبر2017 کوسوپورمیں کینسر سے انتقال ہوا تو وہ ایک معروف سماجی کارکن کی حیثیت سے معارف ہوچکی تھیں۔ 

عرف عام میں لوگ انہیں عتیقہ جی کہا کرتے تھے یہ لڑکی اپنے بچپن میں ہی اپنے والد کے شفقت پدری سے محروم ہوگئی جس کی بنا پر ان کی کفالت ان کی والدہ راجہ بیگم کو کرنا پڑی جو دین دار اور پارسا خاتون تھیں۔ اس زمانے میں خواتین کا گھروں سے قدم باہر رکھنا نہ صرف معیوب بلکہ اعلی تعلیم اور گورنمٹ ملازمت ایک پاپ سمجھا جاتا تھا۔ عام طور بچوں کو مکاتب یا مدارس میں تعلیم کے لیے بھیجا جاتا تھا جو جدید تعلیم سے بہت ہی دور تھے مگر عتیقہ جی کی والدہ نے ایک طرف گھر کا نظم و نسق سنبھالا اور دوسری جانب سماجی دبائو کو نظر انداز کرکے اپنے بچوں کو اسلامی تعلیم کے ساتھ اعلی تعلیم سے آراستہ کرنے کا عزم کیا۔

awaz

عتیقہ بانو اپنے میوزیم میں

عتیقہ جی کے گھر میں کوئی بڑا نہیں تھا جو گھرکی دیکھ بھال کرسکے یا بچوں کی کفالت کی ذمہ داریاں سنبھال سکے اس لیے انہیں خود ہی یہ سب کام انجام دینے پڑے ۔آج کی طرح اسکولز یا کالجز عام نہ تھے مگر کس کو معلوم تھا کہ یہ یتیم اور دینی گھرانے کی روایت پسند بچی کشمیر کے افق پر آفتاب و مہتاب بن کر چمکے گی۔

ایسا کہا جاتا ہے کہ عتیقہ کا زمانے میں جموں و کشمیر میں سیاسی غلامی، جبرو استبداد اور معاشی استحصال کا زمانہ شمار کیا جاتا ہے وقت کا ڈوگرہ حکمران عوام سے بھاری ٹیکس وصول کرکے اپنی حکومت چلاتا تھا اور لوگوں سے زور و زبردستی (بیگار) سے کام لیتا تھا۔ لوگوں میں اتنا ڈر اور خوف تھا کہ ایک معمولی چپراسی سے لوگ ڈرتے تھے۔

awazurdu

میوزیم میں مختلف یادگاریں


ان مظالم کے خلاف پورے کشمیر میں ایک تحریک بھی جاری تھی جس میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین بھی پیش پیش تھیں تعلیم زیادہ تر مردوں کا حق سمجھا جاتا تھا معاشی حیثیت سے خاتون کو بے بس کرکے مردوں کے تابع کردیا گیا تھااس کی ملازمت بالکل ہی معیوب سمجھی جاتی تھی۔ وہ خود اپنی کمائی پر کوئی اختیار نہ رکھتی تھی بلکہ اس کا شوہر ہی سب کجھ ہوتا تھا یہ صورت حال اب بھی کہیں کہیں کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی ہے۔

ان تمام پریشانیوں کے باوجود چند خواتین نے نہ صرف تعلیمی میدان میں اپنا نام روشن کیا بلکہ بہت سے سیاسی سماجی عہدوں پر کام کیا۔ ان میں آغا اشرف علی کی والدہ بیگم ظفرعلی کا نام سرفہرست ہے جوچیف انسپکٹر آف اسکولز، ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ تعلیم، ڈائریکٹر محکمہ تعلیم خواتین، ڈپٹی چیئر مین سماجی اسکولز، ممبر جموں اینڈ کشمیر اسمبلی ویلفیئر ایڈوائزری بورڈ رہ چکی ہیں۔

awazurdu

اپنے میوزیم کے سامنے مرحومہ عتیقہ بانو


اس کے بعد مرحوم احمد علی شاہ کی دوبیٹیاں مس محمودہ احمد علی شاہ اور بیگم جلال دین کشمیر ویمنزکالج کی پرنسل رہ چکی ہیں جب کہ ان کی بھابھی ساجدہ ضمیر احمد بھی اعلیٰ تعلیمی عہدوں پر کام کرتی رہی ہیں۔  انہوں نے کشمیر کے تعلیمی اداروں کو رونق بخشی اور مسلمان خواتین کو آگے بڑھنے کی نہ صرف ترغیب دلائی بلکہ مدد کرنے میں پیش پیش رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ساجدہ ضمیر نے ہی عتیقہ بانو کو آگے آنے کی ترغیب دی اور ان کی رہنمائی کی۔

عتیقہ بانو کی ابتدائی تعلیم گرچہ سوپور میں ہوئی اوربی اے کی ڈگری ویمنز کالج سرینگر سے حاصل کی تھی جب کہ اس کے بعد انہوں نے راجھستان یونیورسٹی سے اردو اور معاشیات میں ایم اے اور بی ایڈ کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔

قصبہ سوپور گونا گوں شخصیات کی آماجگاہ رہا ہے کچھ ایسی ہی شخصیات جو اب اس دنیا میں نہیں رہی ہیں اور کچھ جو ابھی بھی بقید حیات ہیں جنہوں نے قدمے ، درمے، سخنے، بہر صورت اپنی اپنی بساط کے مطابق نہ صرف سوپور کی خدمت کی ہے بلکہ پورے ملک و ملت کیلئے خدمات انجام دی ہیں ان میں عتیقہ بانوکا نام بھی زندہ اور تابندہ رہے گا۔

 عتیقہ بانو نے1958ء میں 20 سال کی عمر میں اپنے کرئیر کا آغاز ایک اسکول ٹیچر کی حیثیت سے کیا ۔جیسا کہ آج کل سیاسی لوگ اپنی بیویو ں کو آگے بڑھانے یا انہیں کوئی مقام دلانے میں سیاسی اثرو رسوخ کا استعمال کرتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ جب کبھی وہ کسی اسکول کی انسپکشن کے لیے جاتی تھیں تو پورے اسکول کا عملہ متحرک ہو جاتا تھا ۔

اگرچہ عتیقہ بانو نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور ٹیچر کیا تھا اور صرف سات سال بعد اسکول انسپکٹر بنی۔ 1977 میں انہیں چیف ایجوکیشن آفیسر بنا دیا گیا۔ 1994 میں ، وہ جموں و کشمیر کے لیے اسکول ایجوکیشن کی جوائنٹ ڈائریکٹر بن گئیں۔ وہ 1999 میں لائبریری اینڈ ریسرچ کی اسٹیٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوگئیں۔

awaz

میراث محل میوزیم کی نوادرات

 سنہ 1970 کی دہائی میں عتیقہ بانو نے خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے ایک تنظیم مجلس نساء قائم کی، جس سے ان کی مالی آزادی حاصل کرنے میں مدد ملی۔اس تنظیم نے خواتین کو خطاطی اور قرآن کی تعلیم کی بھی ہدایت دی تھی۔

عتیقہ بانو کے کیریئر کا ایک حصہ بطور اسکول انسپکٹر ریاست بھر میں سفر کا پابند تھا۔ کشمیر میں مادی ثقافت کے تنوع کا سامنا کرتے ہوئے انہوں نے میوزیم کے قیام کا سوچا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے تاریخی اور ثقافتی نمونے ، خاص طور پر روایتی سامان اور پرانے نسخوں کو جمع کرنا شروع کیا۔ ابتدائی طور پر انہوں نے قریبی کالج کے ہاسٹل کی ایک عمارت میں رکھا بعد میں انہوں نے میوزیم کے لیے ایک علاحدہ جگہ بھی بنائی  اس کا نام میراث محل رکھا۔ سنہ 2001 سے میراث محل میوزیم کے طور پر کام کر رہا ہے، جو کہ سوپور کے نور باغ میں واقع ہے۔

 اس میوزیم میں دستی تحریر قرآن ، فارسی ، عربی اور سنسکرت کے مخطوطات ، تاریخی سکے ، قدیم کشمیری برتن، کشمیری پیروں کے تاریخ، پڈت اور مسلمان صوفیوں کے حالات وغیرہ جمع کئے گئے ہیں۔فی الحال میراث محل ایک ذاتی میوزیم کے طور پر چل رہا ہے۔