حسین کے نکاح میں شرکت، انجلی کی خوبصورت یادیں

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 07-07-2022
حسین کے نکاح میں شرکت، انجلی کی خوبصورت یادیں
حسین کے نکاح میں شرکت، انجلی کی خوبصورت یادیں

 

 

ترپتی ناتھ/نئی دہلی

ایک ایسے وقت میں جب ملک میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بیس سالہ انجلی بھنڈاری ریاست اتر پردیش کے بہرائچ میں اپنی بچپن کی دوست حسین کے نکاح میں شرکت کی خوبصورت یادوں کو شیر کر رہی ہیں۔ اس دوران انہوں نےاسلامی روایات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ دہلی میں ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی کے دفتر میں کام کرنے والی انجلی کا کہنا ہے کہ ان کے والدین نے انہیں دہلی سے تقریباً 600 کلومیٹر دور پندرہ دنوں کے لیے ایک گاؤں میں جانے دیا۔

وہاں انہوں نے 15 دنوں تک قیام کیا۔ حسین کی شادی میں شرکت کے لیے یہ قیام تھا۔ انجلی بتاتی ہیں کہ نئی دہلی کے سری نواس پوری میں پڑوسیوں کے طور پر میرے اہل خانہ اور حسین کے اہل خانہ کے درمیان 12 سالوں سے روابط ہیں۔لہذا،میرے والدین کو حسین کی شادی میں شرکت کی اجازت دینے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔

ہم بس سے گئے اور مجھے ایک بار بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ میں اس کے رشتہ داروں اور دوستوں کے درمیان واحد ہندو ہوں۔ جب کہ یہ حقیقت تھی کہ میں وہاں  واحد ہندو تھی جس نے نکاح اور قبل از شادی مثلاً مہندی اور ہلدی وغیرہ کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ انجلی اس تعلق سے کہتی ہیں کہ حسین اور ان کی والدہ نے اصرار کیا کہ میں ان کی شادی کی خریداری کے لیے پرانی دہلی کے چاندنی چوک میں ان کے ساتھ شامل رہوں۔

  حقیقت یہ ہےکہ دلہن کا جو لباس  حسین نے پہنا تھا، میں نے ہی اسے منتخب کیا تھا۔  خریداری کے دوران ان کی والدہ نے میرے لیے ایک خوبصورت سا گلابی 'شرارہ' خریدا۔ حسین کی والدہ نے خود مجھ سے شرارہ کو پسند کرنے کے لیے کہا تھا۔ یہ لباس میرے لیے بالکل نیا اور خاص تھا۔

 حسنین کے نکاح کے موقع پر میں پہلی مرتبہ شراراہ پہنا۔ اس لباس کو  پہننے کا یہی ایک بہترین موقع تھا۔ شادی میں شرکت کے چھ ماہ بعد انجلی کہتی ہیں حسین کے نکاح نے مجھے اسلامی ثقافت اور روایات کی بہتر سمجھ عطا کی۔ حسین کے اہل خانہ میرے  تعلق سے بہت تحفظاتی تھے۔

وہ اپنے موبائل فون پر اپنی دوست کی شادی کی تصویریں دیکھتے ہوئے کہتی ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اپنے دوست کی  رخصتی کے وقت روئی تھی۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ  نہیں، میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ واپس آئے گی۔

 وہ غازی آباد میں رہتی ہیں اور ہم پہلے بھی ایک دو بار مل چکے ہیں۔ انجلی نے بارہویں جماعت تک تعلیم مکمل کی ہے اور اب یوپی کے ایک پرائیویٹ کالج میں کراس پاونڈیسن کورس کے ذریعہ بزنس ایڈمنسٹریشن میں بیچلر ڈگری کے لیے داخلہ لیا ہے۔

یہ نوجوان لڑکی دوست بنانے میں مذہب کو آڑے نہیں آنے دیتی۔  اس لیے یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ اب وہ اپنی ہم عمر ساتھی رضوانہ سے دوستی کر چکی ہے جو ان کے دفتر میں ایک رسیپشن پر کام کرتی ہے۔ رئیل اسٹیٹ ایجنسی میں انجلی گذشتہ تقریباً نو ماہ سے کام کر رہی ہے، جب کہ رضوانہ نے صرف دو ماہ پہلے ہی کمپنی جوائن کی ہے۔

منگل کو جب اس نامہ نگار نے ان کے دفتر کا دورہ کیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی  کہ انجلی ایک اسمارٹ سیاہ مغربی لباس میں خوبصورت لگ رہی تھی، جب کہ رضوانہ نے روایتی لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ  لباس کے فرق کے باوجود دونوں کی دوستی اثرانداز نہیں ہو رہی ہے۔

رضوانہ نئی دہلی کے علاقہ ذاکر نگر میں رہتی ہے۔ رضوانہ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کیا ہے اور اسی یونیورسٹی سے ایلیمنٹری ایجوکیشن میں ڈپلومہ کیا ہے۔ اب وہ شاہین باغ میں ٹیوشن دیتے ہوئے لائبریری سائنس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کر رہی ہے۔

انجلی کی طرح ان کی 21 سالہ ساتھی رضوانہ بھی اپنے نقطہ نظر میں سیکولر ہے۔ رضوانہ کو اس بات پر فخر ہے کہ انہوں نے پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کیا اور ابتدائی تعلیم میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ اس کے سبز چہرے کا ماسک جس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 100 سال کا سنہری کڑھائی والا پیغام ہے، اس فخر کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے ۔

رضوانہ کہتی ہیں کہ ان کی بہت سی دوست ہندو ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ  کوئی بھی جو کاروبار کرنا چاہتا ہے وہ لوگوں کو مذہبی خطوط پر لیبل لگانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایک تاجر ایسا کبھی نہیں کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ٹیچرز ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں پروفیسر ڈوری لال کے لیے بے حد احترام کرتی ہیں جنہوں نے ہمیشہ طلباء کو عید کی مبارکباد دی۔

 ہم نے بھی ہولی، دیوالی اور نوراتری سمیت تمام بڑے ہندو تہواروں پر انہیں مبارکباد دیا۔ رضوانہ مذہبی خطوط پر امتیازی سلوک کو برداشت نہیں کرتی اور کہتی ہیں کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ انسان جیسا سلوک کرنا چاہیے اور بھائی چارے کے جذبے  کے ساتھ رہنا چاہیے۔