اخون اصغر علی بشارت:بغیر اسکول گئے ادب کے لیے پدم شری

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 30-01-2022
 اخون اصغر علی بشارت:بغیر اسکول گئے ادب کے لیے پدم شری
اخون اصغر علی بشارت:بغیر اسکول گئے ادب کے لیے پدم شری

 

 

احسان فاضلی/سرینگر

اخون اصغر علی بشارت، جنہیں ادب اور تعلیم کے لیے پدم شری سے نوازا گیا تھا، وہ کبھی اسکول میں نہیں گئے اور انہوں نے اپنے والد سے گھر پر تعلیم حاصل کی جنہوں نے اپنے گاؤں کاگریل میں اپنے گھر پرمدرسہ قائم کیا تھا۔ 71 سالہ بشارت بلتی کے ایک منجھے ہوئے اور مقبول مصنف ہیں، جو مقبوضہ کشمیر اور لداخ کے بلتستانی علاقے میں بولی جانے والی زبان ہے۔ ان کے چار دہائیوں کے سفر نے انہیں ریاست جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں ایک نام دیا ہے۔

 بلتستان کے علاوہ بلتی زبان بولنے والے لیہہ اور کارگل میں بھی رہتے ہیں۔ لیہہ میں وہ نوبرا ویلی میں اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے اس پار سکردو-گلگت ریجن (پی او کے) کے قریب کارگل میں رہتے ہیں۔ دو درجن سے زائد بلتی بولنے والے خاندان بھی تقسیم ہند کے بعد جنوبی کشمیر کے پلوامہ کے علاقے ترال میں آباد ہو گئے ہیں۔

 بلتی گلگت بلتستان کی دوسری بڑی زبان ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بلتی بولنے والوں کی تعداد 3,79,000 ہے جبکہ دنیا بھر میں ان کی تعداد 491000 ہے۔

ہندوستان میں بلتی بولنے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ بلتی بولنے والوں کی تعداد میں مردم شماریوں میں مسلسل کمی آئی ہے۔ 1981 کی مردم شماری میں یہ تعداد 48498 تھی، 2001 میں صرف 20053 رہ گئی تھی۔جبکہ تازہ ترین مردم شماری (2011) کے مطابق یہ تعداد 13774 ہے۔ 

 اخون اصغر علی بشارت کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ان کا پہلا ایوارڈ ہے۔ انہوں نےاب تک ضلعی سطح کا ایوارڈ بھی نہیں جیتا تھا۔

یہ ان کے والد شیخ غلام حسین کی کوششوںکا نتیجہ تھا۔جو ایک معروف سماجی اور مذہبی شخصیت تھے اور مذہبی تعلیم کے حوالے سے ایک اتھارٹی تھے جنہوں  نے ایک نوجوان بشارت کو نثر اور نظم لکھنے میں دلچسپی پیدا کی۔

awazurdu

اخون  اصغر علی بشارت ۔ کل اور آج 


کارگل شہر سے تقریباً 13 کلومیٹر کے فاصلے پر ان کا گاؤں، کرکیت چھو سیب اور خوبانی کے لیے مشہور ہے۔

اخون اصغر علی بشارت نے آواز دی وائس کو بتایا۔" 1980 کے بعد سےمجھے شاعری میں دلچسپی ہوئی، خاص طور پر نعت (پیغمبر کی تعریف) اور منقبت (اللہ کی تعریف) میں۔ یہ اس وقت ہوا جب میرے والد کے بلتی زبان میں دو مجموعے شائع ہوئے تھے۔

ان کے والد نے 1972 میں اپنے گھر پر ایک مدرسہ قائم کیا تھا جہاں 70 کے قریب طلباء بلتی، فارسی اور عربی زبانیں سیکھ رہے تھے۔ 1972 میں میرے والد شیخ غلام حسین نے بلتی جاننے والے افراد کی محفل کا اہتمام کیا۔ اس کا نتیجہ بلتی میں جمع کردہ کاموں کی ایک تالیف تھی جو سری نگر سے شائع ہوئی تھی۔ نعت اور منقبت لکھنے پر میرے والد کی رہنمائی میں، میں نے اپنی پہلی کتاب 1980 کی دہائی کے اوائل میں شائع کی۔

awazurdu

ایک محفل میں اخوان اصغرعلی بشارت


اخون اصغر علی بشارت کے ادبی سفر کو اس وقت تقویت ملی جب 1999 میں آل انڈیا ریڈیو کا کارگل اسٹیشن شروع ہوا۔ وہ ریڈیو اسٹیشن سے شاعری کے پروگراموں میں باقاعدہ تھے اور وہ پہلے دن سے ہی اس میں شریک تھے۔

اصغر بشارت نے کہاکہ  ’’صرف کارگل میں ہی نہیں، ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں نے میری شاعری کو پسند کیا۔ انہیں اکثر جموں و کشمیر کے مختلف حصوں میں مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا۔ دوردرشن سری نگر، جے اینڈ کے اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگوئجز اور دیگر تنظیموں کے شوز میں شرکت کی۔

کارگل ریڈیو اسٹیشن سے اپنی پہلی بلتی نظم کے نشر ہونے کا ذکر کرتے ہوئے  انہوں  نےکہا۔میں نے کسی اسکول میں داخلہ نہیں لیا ۔ میں نے اپنے والد سے صرف فارسی اور عربی سیکھی ہے۔ 

 ان کی دوسری اشاعت گلدستے بشرہ جو کہ شاعری کا مجموعہ ہے، 2002 میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد فارسی سے ترجمے پر مبنی وسیلہ نجات چار سال بعد نثری شکل میں شائع ہوئی۔ 2011 کی تیسری اشاعت "بزم بشارت" میں "ہر قسم کے سماجی مسائل" اور اہم قومی ایام اور رہنماؤں پر شاعری شامل ہے۔ بشارت بلتی زبان کے ماہر ہیں اور جے اینڈ کے اسٹیٹ بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کو اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ یہ زبان لداخ کے کچھ اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔