یکجہتی کی انوکھی مثال:سکھ اورہندومل کر بنوارہے ہیں مسجد۔۔مگرکیوں؟

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 15-06-2021
 مسجدکے سنگ بنیادکی تقریب گردوارے میں ہوئی۔
مسجدکے سنگ بنیادکی تقریب گردوارے میں ہوئی۔

 

 

مسجد کے سنگ بنیادکی تقریب گردوارے میں کیوں ہوئی؟

غوث سیوانی،نئی دہلی

آدمیت جذبۂ ایثار ہونا چاہئے

آدمی کو آدمی سے پیار ہونا چاہئے

محبت،رواداری اور ایثارہے تو ہندوستان ہے۔ اس کی مثالیں اکثرہمارے معاشرے میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔حالانکہ قومی میڈیا کی نگاہیں عموماً منفی خبروں کی طرف جاتی ہیں۔ آدمیت،جذبۂ ایثاراورقومی یکجہتی کی تازہ مثال پنجاب سے سامنے آئی ہے۔ یہاں کے ایک سکھ اکثریتی گائوں میں سکھوں اور ہندووں نے اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے ایک مسجد کی تعمیر نو کا فیصلہ کیاہے۔

مسلم خاندانوں کے لئے تحفہ

پنجاب کے موگاعلاقے کے گاؤں بھولیر میں صرف چار مسلمان گھرانے ہیں، یہ وہ خاندان ہیں جو 1947 میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان نہیں گئے تھے۔ اب گائوں کے سکھ اور ہندو خاندانوں نے پہل کی ہے کہ وہ گائوں میں نماز ادا کرنے کے لئے ان خاندانوں کے لئے ایک مسجد تعمیر کریںگے اور سنگ بنیاد بھی رکھ دیا گیا ہے۔ گائوں میں سکھوں اور ہندوؤں کی عبادت گاہیں ہیں مگرمسلمان کی نہیں۔یہاں سکھوں کی آبادی زیادہ ہے لہذا سات گردوارے ہیں، ہندو بھی خاصی تعداد میں ہیں لہذا دومندربھی ہیں مگر مسلمانوں کی آبادی بہت ہی کم ہے پورے گائوں میں صرف چار مسلم کنبے ہیں،ایسے میں ان کے لئے مسجد کی ضرورت ہے اور اس کمی کو پورا کرینگے یہاں کے سکھ اور ہندو بھائی۔ اصل میں یہاں ایک مسجد توہے مگرکئی دہائوں قبل وہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اب اسی مسجدکونئے سرے سے تعمیرکرنے کا بیڑایہاں کے غیرمسلم برادران نے اٹھایاہے۔ اب تمام گائوں والوں نے چندہ جمع کیا ہے اور مسجد کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔

awazurdu

بھائی چارہ کی مثال

 پچھلے دنوں  جب مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا ، سکھ خاندانوں نے گرودوارے میں اس سلسلے میں ایک پروگرام کا اہتمام کرکے بھائی چارے کی ایک انوکھی مثال قائم کی۔ تقریب میں ہندو،سکھ اور مسلمان شامل تھے۔ اس موقع پر لنگر کا بھی اہتمام کیا گیا۔ دی انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس گاؤں میں سات گرودوارے اور دو مندر ہیں ، لیکن کوئی مسجد نہیں ہے۔ 1947 میں تقسیم سے پہلے ایک مسجد تھی ، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگئی۔

گاؤں کے 45 سالہ سرپنچ پالا سنگھ کا کہنا ہے کہ ہمارے گاؤں میں چار مسلمان خاندان ہیں جنھوں نے قیام پاکستان کے بعد یہیں رہنے کا فیصلہ کیا اور تب سے وہ اس گاؤں میں ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سب کی خواہش تھی کہ مسلمان گھرانوں کے لئے بھی ایک عبادت گاہ ہو۔ چنانچہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ کھنڈر میں تبدیل ہوچکی مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا جائے۔مسجداسی مقام پربنے گی جہاں یہ پہلے موجود تھی۔ پال سنگھ نے بتایا کہ جب مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے تمام تیاریاں کی گئیں تو بھاری بارش شروع ہوگئی اور یہ زمین دلدل بن گئی تھی

۔ گردوارے میں تقریب

لوگ اس وقت افسردہ اور مایوس ہوگئے تھے جب بتایا گیا کہ شدید بارش کی وجہ سے تقریب ملتوی کرنا پڑ سکتی ہے۔پھرفیصلہ کیاگیا کہ مسجدکے سنگ بنیاد کی تقریب والے پنڈال کو قریبی سری ستسنگ سنگھ گرودوارہ میں منتقل کردیا جائے۔ گرو کا گھر ہمیشہ ہی تمام برادریوں کے لئے کھلا رہتا ہے۔ پھر سب نے جمع ہو کر گھنٹوں میں ہر چیز کا بندوبست کرلیا۔ پروگرام کاانتظام کیا گیا اور اس میں تمام گائوں والوں نے حصہ لیا۔

awazurdu

دسویں عبادت گاہ مسجد

سرپنچ نے کہا کہ پچھلے 70 سالوں میں ، گائوں والوں نے کبھی کسی کو تنہا محسوس نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں بہت خوشی ہے کہ ایک مسجدبنے گی جوہمارے گائوں میں ہماری دسویں عبادت گاہ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہر برادری کے لوگوں نے 100 روپے سے لیکر 1 لاکھ روپے تک کا عطیہ دیا۔ علاوہ ازیں وقف بورڈ ممبران بھی تعاون کر رہے ہیں۔

تعاون کی یقین دہانی

گاؤں کے سابق سرپنچ بوہر سنگھ نے گرودوارے میں تقریر کے دوران کہا کہ ان کا پورا گاؤں مسجد کی تعمیر میں مکمل تعاون کرے گا۔ تقریب میں شریک ایک عالم دین مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی نے گائوں والوں کا شکریہ ادا کیا۔ سچ ہے:

سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں

آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت