نیویارک: خلائی سائنس میں ایک بڑا انقلاب آگیا ہے۔ یہ کارنامہ امریکہ کے خلائی ادارے ناسا کے نام رہا ہے ۔ دراصل نظام شمسی کی دوسری جانب سے سیارچے کا ایک ٹکڑا زمین پر پہنچ گیا ہے جو ناسا کے اوسائرس ریکس مشن کی بڑی کامیابی ہے۔
ناسا کے خلائی جہاز نے کئی سال تک سیارچے ’بینو‘ کی طرف پرواز کی اور اس کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے بعد اسے زمین پر بھیجا تاکہ محققین اس کا مطالعہ کرسکیں۔
سیارے کا نمونہ زمین پر پہنچنے کے بعد وہ مشن مکمل ہے جس میں سات سال لگ گئے۔ خلائی جہاز نے سیارے تک پہنچنے کے لیے چار ارب میل کا سفر کیا۔ اس خلائی مشن پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئی۔ سیارچے کے ان ٹکڑوں سے پتہ چل سکتا ہے کہ ہم کہاں سے آئے۔ سائنس دان اس مواد کا تجزیہ کرنے کے لیے کام شروع کریں گے، اس امید میں کہ پتہ لگایا جا سکے کہ سیارے کیسے بنتے ہیں اور اپنے ماضی بعید میں ہمارا نظام شمسی کیسا تھا۔ ناسا نے 2016 میں اپنا اوسائرس ریکس خلائی جہاز بینو پر بھیجا۔ وہ 2020 میں دور افتادہ سیارچے پر اترا اور اس کا ایک ٹکڑا بطور نمونہ حاصل کیا۔
After a journey of nearly 3.9 billion miles, the #OSIRISREx asteroid sample return capsule is back on Earth. Teams perform the initial safety assessment—the first persons to come into contact with this hardware since it was on the other side of the solar system. pic.twitter.com/KVDWiovago
— NASA (@NASA) September 24, 2023
یہ امریکی خلائی ایجنسی کا کسی سیارچے سے نمونہ جمع کرنے کا پہلا مشن ہے۔ یہ زمین پر پہنچنے والا کسی سیارچے کا اب تک کا سب سے بڑا نمونہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق نمونے لانے والے کیپسول میں سیارچے کی سطح سے لی گئی تقریباً ڈھائی سو گرام چٹانیں اور دھول موجود ہے۔