سعودی عرب:فلموں سے 70 سال پرانا رشتہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-12-2021
سعودی عرب:فلموں سے 70 سال پرانا رشتہ
سعودی عرب:فلموں سے 70 سال پرانا رشتہ

 

 

جدہ : سنیما کے ساتھ سعودیوں کا رشتہ کئی دہائیوں پرانا ہے۔ سعودی عرب میں پہلی فلم میں حفظان صحت کے حوالے سے معاشرے میں رائج بعض نظریات کو درست کے لیے تیار کی گئی تھی۔العربیہ کے مطابق یہ فلم تقریباً ستر سال قبل تیار کی گئی جب حسن الغانم نے افتتاحی ٹیپ کاٹ کر پہلے سعودی اداکارکے طور پر فلم ’الذباب‘ پر کام شروع کیا۔ یہ فلم آرامکو کمپنی کی طرف سے پروڈیوس کی گئی

اس پرمتوفی اداکار کے بیٹے اور پروڈیوسر ماہر الغانم نے بتایا کہ ان کے والد نے ظہران کے الجبلہ پرائمری اسکول میں عربی اورانگریزی کی تعلیم حاصل کی۔انگریزی زبان ان کے لیے فلمی دنیا میں آنے میں معاون ثابت ہوئی۔ انہوں نے اس اسکول کے ابتدائی مرحلے میں شاہ عبدالعزیز کے سامنے دونوں زبانوں میں تقریر کی جس پر انہوں نے حسن الغانم کی ذہانت کو سراہتے ہوئے 500 ریال سے نوازا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ میرے والد آرامکو کے اسکالرشپ کے پہلے بیچ میں شام کے شہر حلب اور اس کے بعد بیروت گئے۔حلب اور بیروت میں تعلیمی سفر کے دوران انہوں نے سنیما کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ اس دوران امریکی فلم کا عملہ جو ’ہالی ووڈ‘ سے تھا صحت کے خطرات اور ضروری طبی آگاہی کے لئے ایک فلم بنانے کے لیے سعودی سرزمین پر پہنچا۔

اُنہیں تیزی سے پھیلتی ایسی بیماریوں جن کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کی زندگیاں ختم ہوگئیں پر ایک فلم بنانا تھی۔ ان بیماریوں کے باعث ان کے والد کے 13 بھائی چل بسے تھے۔ انہوں نے حفاظتی طب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور آرامکو میں ہیلتھ ایجوکیشن کے سربراہ کی ذمہ داری سنبھالی۔فلم کے عملے نے اس میں کردار ادا کرنے والے افراد کی تلاش شروع کی۔ حسن الغانم کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے امریکی ٹیم نے انہیں فلم میں ہیرو کے طور پر کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کی ایک وجہ ان کا روانی کے ساتھ انگریزی زبان میں بات کرنا بھی تھا۔ اس فلم میں انہوں نے صالح کے فلمی نام کے ساتھ کردار ادا کیا۔ صالح ان کا ایک بھائی تھا جو بیماری میں فوت ہو گیا تھا۔ فلم کی شوٹنگ اڑھائی ماہ تک جاری رہی۔ یہ سنہ 1950ء کی بات ہے جب سعودی عرب میں پہلی فلم ریلیز ہوئی جس کا دورانیہ 30 منٹ تھا۔

فلم کے کچھ مناظر بار بار فلمائے گئے۔ ماہر غانم کے مطابق فلم کے پردے کے پیچھے موجود شائقین کے تبصروں اور قہقہوں کی وجہ سے اس کے بعض سین بار بار دہرائے گئے۔

چونکہ لوگ اس وقت کیمرے کے قریب بیٹھ کر اس کے تقاضوں سے آگاہ نہیں ہوتے تھے۔ جب فلم تیار ہوگئی تو اسے پبلک میں کھلے مقامات پر دکھانے کا اعلان کیا گیا۔

فلم دیکھنے کے لیے کھڑکی توڑ رش پڑ گیا اور مردو خواتین شائقین کی بڑی تعداد نہ صرف فلم دیکھنے کے لیے امڈ آئی بلکہ اسے بار بار دکھانے کا بھی مطالبہ کیا جانے لگا۔

سعودی عرب میں تیار کی جانے والی پہلی فلم ’ذباب‘ کو 8 زبانوں میں ڈب کرکے نشر کیا گیا۔ فلم کا بنیادی ’تھیم‘ اور مقصد صحت سے متعلق آگاہی کو فروغ دینا اور متعدی امراض سے بچاؤ کے لیے شعور پیدا کرنا تھا۔

ماہر غانم کا کہنا ہے کہ یہ فلم ڈرامے کے بغیر نہیں ہے کیونکہ یہ خلیج میں پہلی ڈیکوڈراما پروڈکٹ ہے۔ آرامکو نے یہ فلم حسن کو تحفے میں دی جس کی رائلٹی اور نشریات کے حقوق ان کے خاندان کے پاس ہیں۔ ان کے بیٹے کے مطابق مشرقی صوبے میں ثقافت اور فنون کی تنظیم نے درخواست کی کہ فلم کو مکمل طور پر دکھایا جائے۔ دوسری جانب ایک میوزیم میں نمائش متوقع ہے۔ مستقبل میں فلم کے کچھ شارٹس دکھائے جائیں گے۔