رنگوں کا تہوار ہولی اور بالی ووڈ کے نغمے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 17-03-2022
رنگوں کا تہوار ہولی اور بالی ووڈ کے نغمے
رنگوں کا تہوار ہولی اور بالی ووڈ کے نغمے

 

 

شاہ تاج خان، پونے

ہولی ہے

کیا خوب آئی ہولی

مستوں کی نکلی ٹولی

تہوار کی مستی اور بالی ووڈ کے گانے جب مل جاتے ہیں تب ہوتا ہے دھمال۔ہولی کے تہوار میں رنگ،گلال،میٹھی گجیا،شاعری اور بالی ووڈ کے گیتوں کا اپنا ہی لطف ہوتا ہے۔ہولی ہو اور کوئی دھوم دھڑاکا نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے ؟ سرخ ،نیلے پیلے ،سبز رنگ ہواؤں میں بکھرے ہوں ،رنگ بھرے غبارے آآ کر ٹکرا رہے ہوں ،پچکاریوں سے برسنے والا رنگ لوگوں کو سرابور کر رہا ہو ایسے میں نظیر اکبر آبادی کی نظم کے کچھ حصے یاد آتے ہیں:

 جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی

 اور دف کے شور کھڑکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی

 پریوں کے رنگ دمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی

خم ،شیشے ،جام ،جھلکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی

ایسے ہی وقت میں فل آواز میں ہولی کا "اینتھم "کہا جانے والا گیت"رنگ برسے بھیگے چنر والی رنگ برسے" اپنی اہمیت کا احساس کراتا ہے ۔فلم سلسلہ کے اِس گیت کے بنا ہولی ادھُوری معلوم ہوتی ہے ۔امیتابھ بچن ،ریکھا ،جیا بچن اور سنجیو کمار نے پردے پر جو ہولی کھیلی اُس کا رنگ آج بھی پھیکا نہیں پڑا ہے.

 ملو گلے سے گلے بار بار ہولی میں

شاعر ہولی پر اپنے جذبات و خیالات کو یوں بیان کرتا ہے کہ

گلے مجھ کو لگا لو اے میرے دلدار ہولی میں

بجھے دل کی لگی بھی تو اے میرے یار ہولی میں

تو ہندی فلم "کٹی پتنگ" میں راجیش کھنہ یہ گاتے ہوئے آشا پاریکھ کو رنگ دیتے ہیں کہ"آج نہ چھوڑیں گے۔۔۔! تو شعلہ فلم میں دھرمیندر گاتے ہیں کہ" ہولی کے دن دل مل جاتے ہیں۔۔!

شاعر دھیمے سے کہتا ہے

بادل آئے ہیں گھر گلال کے لال

کچھ کسی کا نہیں کسی کو خیال

ہولی کھیلتے ہوئے جب مستی پورے شباب پر پہنچ رہی ہو تب "آپ کی قسم "فلم کا نغمہ " جے جے شو شنکر ۔

نوجوانوں کے جوش کو اور بڑھا دیتا ہے ۔بالی ووڈ کی کئی ایسی فلمیں ہیں جن کے ہولی کے سین آج بھی یاد کئے جاتے ہیں۔

گیت ہولی کے زباں پر ہاتھ میں پچکاریاں

اردو شاعری کی اگر بات کریں تو ہندوستان کے تہواروں کو بے شمار شاعروں نے اپنا موضوع بنایا ہے۔ شاعری کا اپنا ماحول ہوتا ہے اور یہ ماحول کہیں اور سے نہیں بلکہ اپنے اِرد گِرد کے ماحول سے حاصل کیا جاتا ہے اور پھر ایک شاعر اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ چہار جانب رنگ بکھرے ہوں،مستی ہو تو ایک شاعر اپنے ماحول اور معاشرت سے کیسے بے نیاز رہ سکتا ہے۔ وہ آہستہ سے اپنے دل کی بات يوں کہتا ہے۔

موسم ہولی ہے دن آئے ہیں رنگ اور راگ کے

ہم سے تم کچھ مانگنے آؤ بہانے پھاگ کے

تو بالی ووڈ اپنے بنداس انداز میں ڈھول تاشے کے ساتھ میدان میں کھل کر آتا ہے اور" ملن ٹاکیز " فلم میں چلا کر کہتا ہے کہ "مائنڈ نہ کریو ہولی ہے ۔۔۔"اتنا ہی نہیں "یہ جوانی ہے دیوانی"میں دیپکا پڈوکون خود کہتی ہیں کہ " بلم پچکاری جو تو نے مجھے ماری ۔۔۔!

تھوڑا اور آگے چلتے ہیں تو فلم"گولیوں کی راس لیلا - رام لیلا " میں رنویر سنگھ اور دیپیکا پڈوکون گاتے ہیں کہ" لہو منہ لگ گیا!

ہندی فلموں میں ہولی کا سین اکثر فلم کی کہانی کو موڑ دینے میں بھی مددگار بنتا ہے جیسے فلم سلسلہ میں رنگ برسے بھیگے چنر والی رنگ برسے۔ ختم ہوتے ہی کہانی نئے رنگ میں نظر آتی ہے۔

پہلے زمانہ اور تھا

ہولی ایک قدیم ہندوستانی تہوار ہے تیرہویں صدی میں امیر خسرو ہولی کچھ ایسے کھیلنے کی بات کرتے ہیں:

 کھیلوں گی ہولی،خواجہ گھر آئے

دھن دھن بھاگ ہمارے سجنی

خواجہ آئے آنگن میرے

اردوزبان کسی بھی دور میں ہندوستانی ماحول اور معاشرہ سے بے نیاز نہیں ہوئی ہے۔اردو شاعری ابتدا سے ہی سب کے ساتھ مل کر اور سبھی کو ساتھ لے کر چلتی رہی ہے۔ یہ مشترکہ تہذیب کی علامت ہے۔لیکن اب شاعر شکایت بھی کر رہا ہے کہ پہلے زمانہ اور تھا مے اور تھی دور اور تھا۔

وہ بولیاں ہی اور تھیں وہ ٹولیاں ہی اور تھیں،وہ ہولیاں ہی اور تھیں.

کیونکہ یہ بھی حقیقت ہے:

بڑی گالیاں دے گا پھاگن کا موسم

اگرآج ٹھٹھا ٹھٹھولی نہ ہوگی

پکارے یک بہ یک ہولی ہے ہولی

ڈھول کی تھاپ پر رقص،رنگ بھرے غبارے،رنگ گلال،پچکاری اور ساتھ میں بالی ووڈ کے گیت۔۔تب ہوتی ہے ٹھکانے کی ہولی۔ باغبان فلم میں امیتابھ بچن،ہیما مالنی کے ساتھ ہولی کھیلتے ہوئے جب گاتے ہیں کہ"ہوری کھیلے رگھوویرا."تو وی شانتا رام کی فلم "نو رنگ" کے گیت "ارے جا رے نٹ کھٹ ۔۔۔" میں سندھیا کی ہولی آج بھی نوجوانوں میں جوش بھر دیتی ہے ۔" مدر انڈیا "کا ہولی آئی رے ۔

کل ملا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہولی کا تہوار ہندی فلموں میں کل بھی اہمیت کا حامل تھا اور آج بھی ہے ۔وقت بدلا ہے ،مزاج بدلے ہیں لیکن ہولی کا انداز آج بھی وہی پرانا ہے ۔رنگ لگاتے نہیں رنگوں میں ڈبو دیتے ہیں۔