فاطمہ شیخ کون تھیں جو آج گوگل پر چھائی ہوئی ہیں؟

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 09-01-2022
فاطمہ شیخ کون تھیں جو آج گوگل پر چھائی ہوئی ہیں؟
فاطمہ شیخ کون تھیں جو آج گوگل پر چھائی ہوئی ہیں؟

 


نئی دہلی: گوگل آج ماہر تعلیم اور حقوق نسواں کی علمبردار فاطمہ شیخ کا جشن منا رہا ہے۔ ہندوستان کی پہلی مسلم خاتون ٹیچر سمجھا جاتا ہے۔فاطمہ شیخ نے ساتھی علمبرداروں اور سماجی مصلحین جیوتی راؤ اور ساوتری بائی پھولے کے ساتھ مل کر 1848 میں انڈیجینس لائبریری کی بنیاد رکھی جو کہ لڑکیوں کے لیے ہندوستان کے پہلے اسکولوں میں سے ایک ہے۔

فاطمہ شیخ آج کے دن 1831 میں پونے میں پیدا ہوئیں۔ وہ اپنے بھائی عثمان کے ساتھ رہتی تھیں، اور پسماندہ طبقات کے لوگوں کو تعلیم دینے کی کوشش کرنے پرانھیں گھر سے بے دخل کردیاگیاتھا۔

ساوتری بائی پھولے اور فاطمہ شیخ نے پسماندہ دلت اور مسلم خواتین اور بچوں کو پڑھایا جنہیں طبقے، مذہب یا جنس کی بنیاد پر تعلیم سے محروم رکھا گیا تھا۔ سماجی مساوات کے لیے تاحیات جنگ لڑنے والی فاطمہ شیخ نے گھر گھر جا کر لوگوں کو لائبریری میں سیکھنے اور ہندوستانی ذات پات کے نظام کی سختی سے بچنے کی دعوت دی۔

انھیں اونچے طبقوں کی طرف سے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ، لیکن شیخ اور اس کے اتحادی ڈٹے رہے۔شیخ کی ساوتری بائی پھولے سے ملاقات اس وقت ہوئی جب دونوں ایک امریکی مشنری سنتھیا فارار کے زیر انتظام ٹیچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لے رہی تھیں۔

فاطمہ شیخ نے 1851 میں بمبئی میں دو اسکولوں کے قیام میں بھی حصہ لیا۔ ہندوستانی حکومت نے 2014 میں فاطمہ شیخ کی کامیابیوں پر نئی روشنی ڈالی اور ان کے پروفائل کو اردو کی نصابی کتب میں دوسرے نمایاں اساتذہ کے ساتھ شامل کیا۔

وہ گھر گھر جاتیں اور بچوں کو پڑھائی کے لیے اپنے گھر بلاتی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ پسماندہ بچے ہندوستانی ذات پات کے نظام کی رکاوٹوں کو عبور کریں اور لائبریری میں پڑھنے کے لیے آئیں۔ پھولے جوڑے کی طرح وہ بھی زندگی بھر تعلیم اور مساوات کی جدوجہد میں شامل رہیں۔ انہیں مہم میں بھی بڑی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سماج کے بااثر طبقوں نے اس کے کام میں رکاوٹ ڈالی۔ انہیں ستایا گیا لیکن فاطمہ شیخ اور ان کے ساتھیوں نے ہمت نہیں ہاری۔

فاطمہ شیخ کی زندگی اس لیے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ غالباً انہوں نے دلتوں اور مسلمانوں کی پہلی مشترکہ جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ مظلوم گروہوں کے درمیان اتحاد نے ہمیشہ آزادی کی جدوجہد کی راہ بنی ہے۔ جیسا کہ بعد میں چلو ترواننت پورم، اور دلت اسمیتا یاترا جیسی تحریکوں میں دیکھا گیا۔

فاطمہ شیخ کے بھائی عثمان شیخ بھی جیوتی با اور ساوتری بائی پھولے کی تحریک سے متاثر تھے۔ اس دور کے نوشتہ جات کے مطابق، یہ عثمان شیخ ہی تھے جنہوں نے اپنی بہن فاطمہ کو معاشرے میں تعلیم پھیلانے کی ترغیب دی۔ 

جب فاطمہ شیخ اور ساوتری بائی نے بابائے قوم جیوتی باپھولے کے قائم کردہ اسکولوں میں جانا شروع کیا تو پونے کے لوگ خواتین کی تعلیم کو ناقابل تصور سمجھتے ہوئے بعض اوقات ان پر گوبر پھینک دیتے تھے۔ ایسے وقت میں جب ملک میں فرقہ پرست طاقتیں ہندوؤں اور مسلمانوں کو بانٹنے کے لیے سرگرم ہیں، فاطمہ شیخ کے کام کا ذکر کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔

 درحقیقت، فاطمہ تمام مساویانہ خیالات سے بہت متاثر تھیں۔ تاریخ نے جیوتی با اور ساوتری بائی پھولے کی شراکت کو درج کیا ہے، لیکن فاطمہ شیخ اور عثمان شیخ کا ذکر نہ کرنا افسوسناک ہے، جو ابتدائی لڑائی میں ان کے اتحادی تھے۔ خواتین کی تعلیم اور سیکولرازم کے سوال پر متعلقہ لوگوں کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ فاطمہ شیخ اور عثمان شیخ کی خدمات کا پتہ لگائیں۔ فاطمہ پر تحقیق کی ضرورت ہے جو تحریک آزادی نسواں کا ایک اہم کردار تھیں