اردو صحافت اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونکیشن

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 27-01-2021
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونکیشن
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونکیشن

 

شاہد حبیب انصاری/ نئی دہلی

اردو صحافت کی زبوں حالی کو بیان کرتی ہوئی ایک خبر گردش کر رہی ہے- ہوا یوں کہ  پچھلے کچھ برسوں سے ملک میں میڈیا کی تعلیم کے سب سے معروف ادارے  انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونکیشن کے اردو پروگرام میں طالب علم  آنا کم ہو گئے - معاملہ اتنا آگے بڑھ گیا کہ ادارےکی اردو صحافت پرگرام کے لئے مختص سیٹیں خالی رہنے لگیں - واضح رہے کی  انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونکیشن کا شمار ملک  بھر میں  صحافت اور ماس میڈیا کی فیلڈ کے سب سے معروف اداروں میں ہوتا ہے - سال 2018 میں ادارے کی 15 سیٹوں پر صرف 6 طالب علموں نے داخلہ لیا - یہ چشم کشا حقیقت اردو صحافت کی حالت زار کی عکاسی کرتی ہے- ان 15 سیٹوں کے لئے  صرف 11 امیدواروں نے فارم بھرے جس میں سے صرف 6 انٹرویو کے لئے  آئے  اور وہ سبھی سلیکٹ ہو گئے- 2017  میں بھی صرف 5 طالب علموں نے کورس پورا کیا-  انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونکیشن کی  2016  کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 9  طالب علموں نے کورس میں داخلہ لیا اور صرف 6 طالب علم ایسے تھے جنہوں نے کورس پورا کیا- 
 
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونکیشن
یہ ادارہ  17 اگست 1965 کو معرض وجود میں آیا - اس کے قیام کا  بنیادی مقصد یہ تھا کہ صحافت، میڈیا اور بڑے پیمانے پر مواصلات کے شعبوں میں تدریس، تربیت اور تحقیق کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے - پچھلے 52 سالوں میں، ادارے نے میڈیا کے میدان میں مختلف شعبوں کے کورسز کو شروع کیا - ان کورسز کی تشکیل  میڈیا میں بتدریج ہونے والے  تجدیدی  عمل کی ضرویات کے مد نظر کی گئی  تھین - 
آئی آئی ایم سی ایشیا کا پہلا ادارہ ہے جس نے ایک محکمہ تحقیق، تجزیہ اور کسی موضوع کے مختلف  اثرات کی تشخیص کے مطالعہ کے لئے ایک خاص شعبہ '' شعبہ  برائے  مواصلاتی تحقیق'' قائم کیا - ادارہ ماس میڈیا کی فیلڈ میں مارکیٹ  کے تقاضوں کو دھیان میں رکھ کر پروگرام چلاتا ہے اور اس حوالے سے بہت ہی اچھا پلیسمینٹ ریکارڈ بھی  ہے -   ادارہ انگلش کے علاوہ ہندی، اردو، مراٹھی، اوڑیا  اور ملیالم زبان میں بھی مختلف کورسز کو چلاتا ہے -  
 
 اردو میڈیا کی حالت زار
ادارے سے فارغ ہونے والے متعدد طلبہ مارکیٹ میں اردو کی  خستہ حالت کی شکایت کرتے ہیں - اردو جرنلزم کے کورس میں طلبا کی عدم دلچسبی کی وجہ بتاتے ہوئے محمد راغب کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کرکے بھی اردو صحافیوں کو 15 ہزار سے زیادہ کی نوکری نہیں ملتی- ادارے کے اردو صحافت کے کورس کو کرنے والے اب دوسری جاب میں جا رہے ہیں - اردو اخبارات کے صحافی بھی اسی کا رونا روتے ہیں - اردو رپورٹرز کو بھی دوسری زبانوں کے رپورٹرز کے مقابلے قدرے کم اجرت ملتی ہے- 
 
بہتری کے  طریقے
 اردو صحافت کی ترقی اردو کی مجموعی طور پر ہونے والی  ترقی سے مشروط ہے- اردو کو  مارکیٹ میں  ایک فائدہ مند ذریعہ معاش  بنانے  کے لئے حکومت کو چاہیے کہ  حکومتی اداروں میں اردو مترجم دیگر زبانوں کی طرح ہی بحال کئے  جائیں - انکی تنخواہوں کو بھی مناسب رکھا جائے- حکومت نے کئی  اردو یونیورسٹیز کھولی ہیں لیکن وہاں اردو میڈیم میں ہونے والی تعلیم  برائے نام ہے- سرکار کو چاہئے کہ وہ ان یونیورسٹیز پر زور ڈالے کہ وہ اردو کو میڈیم آاف انسٹرکشن  بنائے  اور کارپوریٹ اداروں کو بھی تاکید  کرے کہ وہ  زبان کی قید سے باہر آکر صرف امید وار کی صلاحیت کو ہی ملحوظ رکھیں  - اس طرح اپنی مادری زبان اردو کے ذریعہ حاصل کی  گئیں پیشےوارانہ صلاحیتیں  فروغ پائیں گی  - اس عمل سے نہ صرف اردو کا بھلا ہوگا بلکہ لوگوں کی تخلیقی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوگا -