’مقالات سرسید‘ کی آٹھویں جلد اور ’حاجی مولوی محمد اسماعیل خاں رئیس دتاولی‘ کا اجراء

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 31-05-2023
’مقالات سرسید‘ کی آٹھویں جلد اور ’حاجی مولوی محمد اسماعیل خاں رئیس دتاولی‘ کا اجراء
’مقالات سرسید‘ کی آٹھویں جلد اور ’حاجی مولوی محمد اسماعیل خاں رئیس دتاولی‘ کا اجراء

 

 علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے وائس چانسلر پروفیسرمحمد گلریز نے سرسید اکیڈمی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب میں اکیڈمی سے شائع ہونے والی ’مقالات سرسید‘ کی آٹھویں جلد اور سرسید کے ایک رفیق حاجی مولوی محمد اسماعیل خاں رئیس دتاولی کی حیات و خدمات پر مبنی تصنیف کا اجراء کیا۔

                   پروفیسر محمد گلریز نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ سرسید احمد خاں اور علی گڑھ تحریک سے متعلق تصانیف کو ناگری اور دیگر مقامی زبانوں میں بھی شائع کیا جانا چاہئے تاکہ سرسید کے پیغام کو دور دراز تک پہنچایا جاسکے۔
                    انھوں نے کہاکہ بچوں پر خاص طور سے توجہ مرکوز کرتے ہوئے باتصویر اور دیدہ ذیب رنگین کتابیں بھی شائع ہونی چاہئیں تاکہ نوجوان نسل سرسید اور علی گڑھ تحریک سے واقف ہوسکے۔ انھوں نے کہا ”دیدہ زیب اور باتصویر کتابوں میں بچوں کی مخصوص دلچسپی ہوتی ہے، ان کی نفسیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سرسید اکیڈمی کو اس پر توجہ دینا چاہئے“۔
                    وائس چانسلر نے مزید کہاکہ سرسید اکیڈمی کے میوزیم میں سرسید، علی گڑھ تحریک اور اس سے وابستہ شخصیات پر کافی مواد محفوظ ہے۔ اسکولی بچوں کے لئے وقتاً فوقتاً یا ماہانہ بنیادوں پر اس میوزیم کے دورہ کا اہتمام کرنا چاہئے تاکہ بچے میوزیم میں محفوظ اشیاء،شخصیات اور مختلف مواقع کی تصاویر کو دیکھ کر علی گڑھ تحریک کی معنویت اور اہمیت کو سمجھ سکیں۔
                    پروفیسر گلریز نے اکیڈمی کے اشاعتی سلسلہ کو سراہتے ہوئے انھیں گرانقدر بتایا اور کتابوں کے محققین اور مصنفین کی محنتوں کا اعتراف کیا۔
      پدم شری پروفیسر حکیم سید ظل الرحمٰن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ سرسید کا ایمان اور عقیدہ بہت مضبوط تھا۔ انھوں نے کہا ”ضرورت اس بات کی ہے کہ سرسید نے جن حوالہ جات کا استعمال خاص طور سے اپنی مذہبی تصانیف میں کیا ہے ان پر تحقیق کی جائے تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ سرسید نے جو باتیں کہیں وہ ان سے پہلے کے محققین و دانشور بھی کہہ چکے ہیں اور ان کی دلیلیں علمی دنیا کے سامنے آئیں“۔ حکیم ظل الرحمٰن نے کہا کہ سرسید سے قبل ابن سینا، ابن رشد، رازی وغیرہ نے بھی جمہور سے الگ ہٹ کر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور اس کے دلائل بھی پیش کئے ہیں۔ سرسید کو بہت سی باتوں پر بلاوجہ معتوب کیا جاتا ہے جو علم و دانش کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ انھوں نے مقالات سرسید کی اشاعت کے لئے اکیڈمی کو مبارکباد پیش کی۔
 
                    اجراء شدہ سوانح حیات ’حاجی مولوی محمد اسماعیل خاں رئیس دتاولی‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر شافع قدوائی (شعبہ ترسیل عامہ) نے کہاکہ کتاب کے مصنف ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی نے بہت عرق ریزی اور محنت سے یہ کتاب تیار کی ہے اور حوالہ جات کا کافی استعمال کیا ہے جو اچھی اور معیاری تحقیق کے لئے ناگزیر ہے۔
                     انھوں نے بتایا کہ علی گڑھ کے قریب واقع دتاولی کے رئیس محمد اسماعیل خاں کی پیدائش 1855 ء میں ہوئی تھی۔ ان کی تعلیم دتاولی اور مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ ان کے والد حاجی محمد فیض احمد خاں شروانی تعلقدار تھے جو 1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد مکہ ہجرت کر گئے تھے۔ محمد اسماعیل خاں تیرہ برس کی عمر میں 1869ء میں علی گڑھ تحریک سے وابستہ ہوئے اور علی گڑھ تحریک کی نہ صرف مالی طور سے بلکہ اپنی تحریروں سے بھی انھوں نے بھرپور مدد کی۔ایم اے او کالج کو فروغ دینے میں ان کا اہم کردار ہے۔انھوں نے لاء، دینیات، انگلش ہاؤس پروجیکٹ، ہارس رائیڈنگ، اسٹریچی ہال اور ایس ایس ہال کی تعمیر کے لئے سرسید کو مالی مدد فراہم کی۔وہ 1875ء میں ایم اے او کالج کی دینیات کمیٹی کے ممبر مقرر ہوئے اور 1882ء میں کالج مینجمنٹ کمیٹی کے نائب صدر بنے۔ سرسید میموریل فنڈ کمیٹی (1901ء) کے بھی وہ سرگرم ممبر تھے۔
                    پروفیسرقدوائی نے بتایا کہ سرسید نے اپنی زندگی کے آخری ایام محمد اسماعیل خاں دتاولی کی حویلی میں گزارے اور وہیں پر 27 مارچ 1898ء میں  ان کا انتقال ہوا۔ سرسید کی معروف سوانح ’حیات جاوید‘ لکھوانے میں بھی انھوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ 
                    اس سے قبل پروفیسر علی محمد نقوی، ڈائرکٹر سرسید اکیڈمی نے مہمانوں اور حاضرین کا خیرمقدم کیا۔ انھوں نے سرسید اکیڈمی کی اشاعتوں کے بارے میں بتایا اور اکیڈمی کی سرپرستی کے لئے وائس چانسلر اور یونیورسٹی انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہاکہ اکیڈمی نے سینئر اساتذہ کے ساتھ ساتھ نوجوان محققین کی بھی خدمات حاصل کی ہیں۔
                    سرسید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے کہا کہ اکیڈمی نے سرسید کے رفقاء اور اکابرین علی گڑھ پر چالیس مونوگراف سمیت متعدد کتابیں شائع کی ہیں۔انھوں نے شکریہ کے کلمات ادا کئے۔
                     ڈاکٹر سید حسین حیدر نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔پروگرام میں دانشوروں کی کثیر تعداد موجود رہی۔