ایک باکمال اور متواضع عالم ومصنف کی وفات ؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 31-05-2021
 مولانا نذرالحفیظ ندوی ازہری
مولانا نذرالحفیظ ندوی ازہری

 

 

تحریر : محمد عمرین محفوظ رحمانی (سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ)

کائنات کی سب سے یقینی چیز موت ہے،جو شخص بھی دنیا میں آیا ہے وہ جانے کے لیے آیا ہے،ہمیشہ ہمیش کی زندگی اس فانی دنیا میں کسی نہیں دی گئی،ہر شخص کا وقت مقرر اور اجل متعین ہے،جب وقت آجاتا ہے تو انسان چاہے یا نہ چاہے اسے دنیا سےرخصت ہونا پڑتا ہے،ادھر کچھ عرصے سے دنیا سے رخصت ہو نے والوں کی کثرت ہوگئی ہے ،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ گیا ہے اور دانے پر دانے گررہے ہیں ،یا درخت کے پتے خزاں رسیدہ ہوگئے اور ایک بعد ایک جھڑتے چلے جارہے ہیں ،گزشتہ چند مہینوں میں کیسی نامی گرامی ہستیاں اور شرف وشعور رکھنے والی شخصیات دنیا سے رخصت ہوئیں،علماء بھی،اہل دانش وبینش بھی ،ملت کا درد رکھنے والے اور ملک کی تعمیر وترقی میں دلچسپی لینے والے کتنے بیش قیمت افراد نے داغ مفارقت دیا،رخصت ہونے والوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ،گزشتہ کل(۱۶؍شوال المکرم ۱۴۴۲ھ مطابق 28؍مئی2021ء)ملک کے ممتاز عالم دین اور ندوۃ العلماءکے لائق احترام استاذحضرت مولانا نذرالحفیظ ندوی ازہریؒ بھیﷲ کی جوار رحمت میں حاضر ہوگئے اناللّٰہ وانا الیہ راجعون، اللّٰھم اغفرلہ وارحمہ وعا فہ واعف عنہ

 حضرت مولانا نذرالحفیظ ندوی ازہری کی رحلت کی خبر نے دل کو بے قرار اور آنکھوں کواشکبار کردیا،وہ بڑے خاموش مزاج ،متواضع اور صاحب علم وقلم انسان تھے ،حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ کی فکر جلیل اور ان کے مزاج تعلیم و تربیت کے حامل ووارث تھے،ان میں علم کی گہرائی، عمل کی تابندگی اور فکر کی سلامتی تھی ، اس حقیر کومتعدد بار ان سے ندوۃ العلماء میں نیاز حاصل کرنے کا موقع ملااور ہر مرتبہ ان کی شرافت کا نقش دل پر گہرا ہوتا گیا ،مجھے یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ کئی پروگراموں میں میں ان کے ساتھ شریک ہوا،ایسے ہی ایک پروگرام میں جو لکھنؤ کے ایک اسلامک اسکول میں منعقد ہوا تھا،ان کی شرافت تواضع اور انکساری کا یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ ان کی تقریرکے دوران جب مخدوم گرامی مرتبت حضرت مولانا سعید الرحمن اعظمی دامت برکاتہم(مہتمم ندوۃ العلماء لکھنؤ) جلسہ گاہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنی بات درمیان ہی میں ادھوری چھوڑ دی اور حضرت مولانا اعظمی کے احترام میں یکلخت اپنی تقریر ختم کردی،بڑوں سے یہ تعلق اور ان کے احترام کا یہ انداز اب کہاں دیکھنے کو ملتا ہے ؟

کوئی شک نہیں کہ وہ خود بہت بڑے انسان تھے ،لیکن انہوں نے اپنے آپ کو چھوٹا بنا کر رکھا،مجھے مرشد الامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم (ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ)کی خدمت میں انہیں حاضر ہوتے ہوئے اور مجلس میں باادب بیٹھتے ہوئےدیکھنے کا متعدد بار موقع ملا ہے،اپنی تمام تر علمی و عملی بلندی کے باوجود وہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کے سامنے جس طرح مؤدب بیٹھتے تھے اور جس انہماک، توجہ اوریکسوئی کے ساتھ ان کی بات سنتے تھے اور ان کے چہرے بشرے اور اعضاءوجوارح سے جس طرح کی محبت، انسیت اور تواضع کا اظہار ہوتا تھا، وہ چیز بس دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ،ندوہ کی مسجد میں قرآن مجید کی تلاوت میں مگن ہوتے تھے تو ایسالگتا تھا کہ دنیا ومافیھا سے بے خبر ہیں ،قرآن مجید سے بہت ہی گہرا تعلق اور لگاؤانہیں حاصل تھا،اور کلام ربانی کی عظمت رگ وپے میں سرایت کرچکی تھی ،فکر قرآنی کے سانچے میں ڈھل جانے کی وجہ سے وہ حکمت کا سر چشمہ بن گئے تھے، وہ بڑے دھیمے لب و لہجے میں بہت کام کی باتیں کہہ جایا کرتے تھے ،ندوۃ العلماء لکھنؤ سے ان کا قلبی تعلق تھا،جس چمنستان علم سے انہوںنے فیض پایا، زندگی کی آخری سانس تک اسی کی خدمت میں مشغول رہے اور’’ وفادار ی بشرط استواری‘‘ کی ایک مثال قائم کرگئے ،کوئی شک نہیں کہ ان کی رحلت ندوی برادری اور دینی اور علمی حلقوں کے لیے بہت ہی غم انگیز سانحہ ہے،ایسے وقت میں جب کہ اکابر اہل علم ایک کے بعد ایک رخصت ہورہے ہیں ،حضرت مولانا نذر الحفیظ ندوی ازہری کا اٹھ جانا پوری ملت اسلامیہ کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔

زندگی کے اچھے اعمال کی برکت اچھی موت کی شکل میں بھی ظاہر ہوتی ہے، حضرت مولانا ؒ نے بڑی پاکیزہ اور قابل رشک زندگی گزاری ،اور اخلاص وللہیت کے ساتھ خدمت دین سے جڑے رہے،اور تقریباً پچاس سالہ مدت تدریس میں ہزاروں طالبان علم نبوت کو فیض پہنچایا ،اسی طرح اپنے صاف ستھرے قلم سے متعدد اہم کتابیں تصنیف فرما کر ملت اسلامیہ کی رہنمائی فرمائی اور اپنے علم کا رشتہ ہمیشہ عمل سے جوڑے رکھا،ﷲنے اس کی یہ برکت ظاہر کی کہ انہیں جمعہ کے دن نماز جمعہ سے قبل سورہ یاسین شریف کی تلاوت کرتے ہوئے پاک پرور دگار کے یہاں سے بلاوا آیااور قابل رشک زندگی گذارنے والے نے بہترین موت بھی حاصل کی اور اس طور پر ﷲپاک کے حضور میں حاضر ہوئے جس پر بجا طور پر رشک کیا جاسکتا ہے،جمعہ کے دن تلاوت قرآن کرتے ہوئےﷲکی بارگاہ میں حاضر ہوناان کے عندﷲ مقبول ہونے اور حسن خاتمہ کی نعمت حاصل ہونے کی نشانی ہے۔

قسمت نگر کہ کشتہ ٔ شمشیر عشق یافت

آں مرگے کہ زاہداں بہ دعا آرزو می کنند

 ﷲتعالیٰ سے دعا ہے کہ ﷲتعالیٰ حضرت مرحوم کی مغفرت فرمائے ،ان کے درجات بلند فرمائے ،ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ندوۃ العلماء کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔ آمین یارب العالمین