علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جلسہ عید میلاد النبی ؐ کا اہتمام

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 10-10-2022
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جلسہ عید میلاد النبی ؐ کا اہتمام
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جلسہ عید میلاد النبی ؐ کا اہتمام

 


علی گڑھ، : علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے کینیڈی آڈیٹوریم میں آج منعقدہ جلسہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں پیغمبر اسلام ؐ کی زندگی، ان کی تعلیمات و اعلیٰ کردار، اور رنگ و نسل، علاقہ، عمر، جنس اور رشتہ داری کے تعصبات سے بالاتر ہو کر سبھی کے لیے ان کی لازوال محبت اور خیرخواہی، مساوات و رواداری، سخاوت، امن و ہم آہنگی اور خواتین کے حقوق کے لیے ان کی فکرمندی کو اجاگر کیا گیا۔

               تقریب کی صدارت کرتے ہوئے اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ آج دنیا کے مختلف خطوں میں نسل اور مذہب کے نام پر بدامنی، لڑائی جھگڑا اور جنگ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ، پانی کا بحران اور موسمیاتی تبدیلی کے مسائل بھی انسانیت کو درپیش ہیں۔ ان سب کا حل پیغمبر اسلام کی تعلیمات میں پوشیدہ ہے جنھوں نے انسانی وقار کو برقرار رکھنے، کسی کو تکلیف نہ دینے، درخت لگانے اور انہیں نہ جلانے اور پانی کو محفوظ کرنے پر زور دیا خواہ کوئی شخص بہتی ندی کے کنارے ہی کیوں نہ ہو۔

               پروفیسر منصور نے کہا ”مکہ میں میدان عرفات کے آخری خطبہ میں نبی کریمؐ نے خواتین کے حقوق اور لوگوں کے درمیان ہر لحاظ سے برابری پر زور دیا۔ یہ تعلیمات آج کی دنیا کے لئے بہت موزوں ہیں جہاں دو فیصد لوگ دنیا کی 60 فیصد دولت کے مالک ہیں، اور نام نہاد ترقی یافتہ دنیا میں بھی رنگ و نسل  اور مذہب کے نام پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے“۔

               آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت، شفقت، دیانت داری، وسیع القلبی اور حکمت کی صفات کو اجاگر کرتے ہوئے وائس چانسلر نے خاص طور سے نوجوانوں کو علم اور حکمت کی راہ پر چلنے کی دعوت دی اور جذباتیت سے گریز کا مشورہ دیا۔

               افتتاحی تقریر میں اے ایم یو پرو وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے کہا کہ ربیع الاول کا مہینہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے موسم بہار کا مہینہ ہے کیونکہ اسی مہینے میں پیغمبرؐ اسلام کی ولادت ہوئی تھی۔ انہوں نے امن، ہم آہنگی اور بھائی چارے کے پیغام کو اجاگر کیاجس پر نبی رحمت نے عمل کرکے دکھایا اور اسے اپنانے کی نصیحت کی۔

               پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے مقرر خصوصی مفتی محمد راشد اعظمی (استاذ حدیث و نائب پرنسپل، دارالعلوم دیوبند) نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عمدہ ترین کردار کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا تھا۔ انھوں نے کہا ”نبی کی زندگی اور ان کے کردار کو ذاتی اور سماجی دونوں سطحوں پر اپنانا چاہئے۔ عاجزی، عفو و درگزر، دیانتداری، صبر اور حسن خلق ان کی چند نمایاں ترین خصوصیات میں سے ہیں، انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے بہت سے دشمنوں کو معاف کر دیا تھا“۔

               انہوں نے حاضرین کو یاد دلایا کہ پیغمبرؐ اسلام اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھتے تھے، تمام لوگوں کے ساتھ پیار سے پیش آتے تھے، ضرورت کے وقت ان کی مدد کرتے تھے اور وہ خبر ملنے پر مریضوں کی عیادت کرتے تھے۔

               انھوں نے مزید کہا کہ پیغمبر اسلام لوگوں سے مسکراکر ملاکرتے تھے اور لوگوں سے بات کرتے وقت چہرے کا رخ انھیں کی طرف رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ مصافحہ کے وقت ہاتھ کو اس وقت تک نہیں ہٹاتے تھے جب تک کہ سامنے والا اپنے ہاتھ نہ کھینچ لے۔ دشمنوں سے بھی مسکراکر ملنا نبی کی شان تھی۔ یہ تمام صفات یہ بتاتی ہیں کہ پیغمبر اسلام اخلاق کی کس بلندی پر فائز تھے اور لوگوں کے احساسات و جذبات کا وہ کتنا خیال رکھتے تھے۔

               مفتی راشد اعظمی نے کہا کہ مایوسیوں اور مصائب کے ماحول میں رسول ؐ کریم کی سیرت ہمارے لئے مشعل راہ ہونی چاہئے۔ اگر ہم سیرت رسول ؐ کو اپنائیں گے تو حالات بہتر ہوں گے۔

               انھوں نے درخت لگانے، بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے، اور سلیقہ سے زندگی گزارنے کی سلسلہ میں اسوہ رسولؐ سے مختلف مثالیں پیش کرتے ہوئے کہاکہ انھیں اپنانے سے دنیا میں صلح و آشتی کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔

               پیغمبرؐ اسلام کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا سید قرۃ العین مجتبیٰ (پرنسپل، جامعۃ المنتظر، نوگانواں سادات) نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ ترین اخلاق، سیرت، آداب و اطوار کے مالک تھے۔ انھوں نے کہا ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ انہوں نے انفرادی اور سماجی سطحوں پر اچھے اخلاقی کردار اور طرز عمل کو اپنایا اور حسد، تکبر اور غرور سے دور رہنے کو کہا“۔

               مولانا مجتبیٰ نے کہا ”رسول پاک ؐ کی زندگی اور جدوجہد کو سمجھنے کے لئے قبل از اسلام کی تاریخ کو سمجھنا پڑے گا۔ یہ وہ دور تھا جب بچیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا۔ 360 خداؤں کے سامنے سجدہ ریز ہونے والوں کو کلمہ توحید کا درس دینا آسان نہیں تھا۔ پیغمبر اسلام نے چالیس برس تک اپنے کردار سے قرآن کو عملی شکل میں پیش کیا، اس کے بعد وحی کے نزول کا سلسلہ شروع ہوا“۔

               انھوں نے مزید کہاکہ حسن خلق یعنی اخلاق وکردار اور خاموشی دو ایسی قیمتی صفات ہیں جن پر پیغمبر ؐ اسلام نے زور دیا اور یہ دونوں اشیاء یوم محشر میں بہت اہم ثابت ہوں گی۔

               اس سے قبل خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر سعود عالم قاسمی (ڈین، فیکلٹی آف تھیالوجی، اے ایم یو) نے کہا کہ ایم اے او کالج / اے ایم یو میں عید میلاد النبیؐ کی تقریبات کا انعقاد بانی درسگاہ سرسید احمد خاں کے زمانے سے کیا جاتا رہا ہے۔ انھوں نے کہا ”یہ ایک مسلسل مبارک سفر ہے جس میں کبھی انقطاع نہیں ہوا۔ سرسید کی اولین کتاب ’جلاء القلوب بذکر المحبوب صلی اللہ علیہ وسلم‘ہے اور آخری کتاب’ازواج مطہرات‘ ہے، جس سے سرسید کے عشق رسولؐ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے“۔

               پروگرام کے دوران وائس چانسلر اور پرو وائس چانسلر نے بالترتیب مفتی محمد راشد اعظمی اور مولانا سید قرۃ العین مجتبیٰ کو شالیں پیش کیں۔

               اس موقع پر اے ایم یو کے طلباء نے نعتیں پیش کیں۔

               پروفیسر محمد حبیب اللہ (ناظم دینیات، اور پروفیسر، شعبہ سنی تھیالوجی، اے ایم یو) نے جلسہ کی نظامت کے فرائض انجام دئے، جب کہ جناب محمد عمران آئی پی ایس، رجسٹرار، اے ایم یو نے شکریہ کی تجویز پیش کی۔

               قبل ازیں، پروفیسر طارق منصور نے مولانا آزاد لائبریری کے سنٹرل ہال میں عید میلاد النبیؐ کی مناسبت سے کتابوں، مخطوطات، نوادرات اور اسلامی خطاطی کے نمونوں کی دو روزہ ’سیرت نمائش‘ کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر یونیورسٹی لائبریرین پروفیسر نشاط فاطمہ اور دیگر افراد موجود تھے۔