حیدرآباد:سادگی سے نکاح کے بعد ’جشن’ پر لگے گی لگام ۔علما کا اعلان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-03-2021
حیدرآباد ۔ جہیز کے خلاف متحد
حیدرآباد ۔ جہیز کے خلاف متحد

 

 

 شیخ محمد یونس ۔ حیدرآباد

عائشہ کی خودکشی کے بعد ہندوستان میں ایک بار پھر جہیز کی لعنت موضوع بحث ہے۔ ایک زندگی کی شمع گل ہوئی تو دیگر زندگیوں کو بچانے کےلئے معاشرہ میں ہلچل پیدا ہوگئی۔آوازیں اٹھنے لگیں اور تجاویز کی جھڑی لگ گئی۔ سماجی محفلوں سے خطبہ تک جہیزکے خلاف نعرے بلند ہورہے ہیں۔معاشرہ میں جہیز سے متعلق کوئی بھی واقعہ پیش آتا ہے تب یہ مسئلہ شدت اختیار کرتا ہے اور پھر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ فراموش بھی کردیا جاتا ہے۔

سابرمتی ندی میں عائشہ کے خودکشی واقعہ نے پھر ایک باراس مسئلہ کی طرف ساری انسانیت کی توجہ مبذول کروائی ہے۔جہیز کی وجہ سے کئی لڑکیوں کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔اب پھر آواز اٹھ رہی ہے کہ شادیاں کیسے ہوں اور کن باتوں کا خیال رکھا جائے۔حلف برداری کا سلسلہ جاری ہے ،سب قسمیں کھا رہے ہیں اور عہد کررہے نہیں ۔یہ نہیں کریں بگے۔۔وہ نہیں کرنے دیں گے۔مگرسوال یہی ہے کہ کب تک؟ اور کون اس پرعملی طورسرگرم ہوگا۔حیدرآباد میں بھی میں جہیز کے خلاف مہم میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔مذہب اسلام میں نکاح کو آسان بنانے کی تلقین کی جارہی ہے۔ تاہم آج بیجا رسوم ورواج اوراغیار کے طریقوں کے باعث نکاح کو مشکل بنادیا گیا ہے۔

دھوم دھام ہوگا تونکاح نہیں ہوگا

بات واضح ہے کہ اس لعنت کے خلا ف ہر سطح پر عملی طور پر کام کرنا ہوگا۔حیدرآباد میں رکن مسلم پرسنل لاء بورڈ و امیر امارت  ملت اسلامیہ تلنگانہ و آندھراپردیش مولانا محمد حسام الدین ثانی عاقل جعفر پاشاہ  نےاعلان کیا ہے کہ

’’شادی خانوں میں انجام دی جانے والی شادیوں میں شرکت نہیں کروں گا اور ایسے افراد کے نکاح نہیں پڑھائیں گے جو مسجد میں نکاح تو کرتے ہیں۔تاہم شادی خانوں میں ضیافت کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ دوہرا معیار ناقابل قبول ہے۔ایسی اسراف اور خرافات والی شادیوں کیلئے خطبہ نکاح پڑھانے سے ہرگز اجر نہیں ملے گا۔ جہیزاور گھوڑے جوڑے کی شادیوں کا مقاطعہ کیا جانا چاہئے۔

مولانا جعفر پاشاہ نے اس سلسلہ میں حیدرآباد کے علماء کے ساتھ ساتھ بزرگوں سے تعاون کی خواہش کی ہے۔مسلمانوں کے داخلی بالخصوص عائلی مسائل کی یکسوئی کیلئے محلہ کی سطح پر کمیٹیوں کے قیام کی تجویز پیش کی۔ تاکہ سماج سے گھوڑے جوڑے اور جہیز کی لعنت کے علاوہ خودکشی جیسے واقعات کا تدارت ہوسکے۔

ملت کے تمام علماء اور مشائخین سے بھی اپیل کی کہ وہ غیر شرعی تقاریب کا بائیکاٹ کریں ۔اگر جہیز کی لعنت کا خاتمہ نہیں کیا گیا تب عائشہ کی طرح کئی معصوم لڑکیوں کے خودکشی واقعات سامنے آئیں گے۔حالانکہ خودکشی مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔والدین اور سرپرست اپنی لڑکیوں کی اسلامی نہج پر تربیت کو یقینی بنائیں۔

AAAAA

 دائیں سے بائیں)   مولانا انوراحمد  -  مولانا جعفر پاشا -  مولانا آصف عمری -  حافظ شیخ علی - ایڈوکیٹ مجیب الدین)

 خودکشی نہ کریں،ظلم کو آشکار کریں

 عائشہ کی خودکشی کو اس مسئلہ کا حل نہیں مانا جاسکتا ہے۔اس طرح زندگی سے منھ موڑنا درست نہیں۔اہم ہوگا کہ ظالم کے ظلم کو آشکار کیا جائےاس کو بے نقاب کیا جائے تاکہ وہ معاشرے میں منھ دکھانے کے قابل نہ رہے۔یہ تاثرات ہیں مفتی محمد انوار احمد قادری شیخ التفسیر جامعہ نظامیہ کے۔انہوں نے آوازدی وائس سے بات کرے ہوئے کہا کہ  کہا کہ جہیز کے حوالے سے بنت حوا پر جو ظلم کیا جارہا ہے اس کی تاریخ بڑی طویل ہے۔جہیز کی لعنت کے خلاف شعور بیداری وقت کا تقاضہ ہے۔وہیں دختران ملت میں ایمان و یقین کی طاقت کو فروغ دینا بھی بے حد ضروری ہے۔تاکہ وہ کسی بھی قسم کے حالات کا مقابلہ کرسکیں اوراپنی متاع عزیز زندگی کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔

انہوں نے کہا کہ انتہائی اقدام یا خودکشی مسائل کا حل نہیں ہے ۔دختران ملت خودکشی جیسے عمل سے بہر صورت اجتناب کریں۔ظالم کے ظلم کوانہ آشکار کیا جائے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق خودکشی حرام ہے۔احادیث مبارکہ میں بھی خودکشی کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔مولانا نے کہا کہ شادیوں میں جہیز عام بات ہوگئی ہے۔اس لعنت کے خاتمہ کیلئے نوجوانوں کو آگے آنا چاہئے اور شریعت کے مطابق نکاح کرنا چاہئے۔

 جہیز ایک فیشن بن گیا ہے

 جہیزایک فیشن بن گیا ہے۔اہل ثروت افراد اپنی لڑکیوں کی شادی میں بے دریغ اور بے تحاشہ خرچ کررہے ہیں جبکہ غریب اپنی دختران کی شادیوں کیلئے مشکلات کا شکار ہیں۔بعض اوقات غریب ماں باپ لڑکیوں کی شادی کیلئے قرض اور سود کے دلدل میں بھی پھنس جاتے ہیں۔یہ تاثرہیں ڈاکٹر سید آصف عمری امیر صوبائی جمعیت اہلحدیث تلنگانہ  کے ہیں۔

ان کا کہنا ہےکہ گجرات میں ایک خاتون کے خودکشی واقعہ نے عمومی طورپر ساری انسانیت کو مغموم بنادیا ہے۔ یہ واقعہ ہمیں درس عبرت دیتا ہے۔ جہیز کا لینا اور دینا دونوں غیر اسلامی ہے ۔ ہمیں اللہ کی رضا اور خوشنودی کیلئے زندگی گزارنی چاہئے۔جہیز معاشرہ کیلئے انتہائی مہلک ' خطرناک' زہر اور ناسور ہے۔

  ہر شخص کہہ رہا ہے کہ لعنت جہیز ہے پھر بھی تلاش کرتا ہے رشتہ جہیز کا۔ایسے حالات میں اصلاح معاشرہ کا کام اپنی ذات سے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔                 

 نوجوانوں کو حلف دلوایا جائے

جہیز کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم چلائی جانی چاہئے۔مہم میں علمائ' ائمہ کے علاوہ نوجوانوں کو بھی شامل کیا جانا چاہئے۔ایسی شادیوں کا بائیکاٹ کیا جانا چاہئے جس میں جہیز لیا جاتا ہے۔ان خیالات کا اظہارکیا ہے حافظ وقاری شیخ محمد علی نائب امام تاریخی  مکہ مسجد نے۔انہوں نے کہا کہ جہیز کی لعنت کیلئے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی برابر کی ذمہ دار ہیں ۔ شادی بیاہ میں بڑے پیمانہ پر بیجا رسومات انجام دی جاتی ہیں۔

 مذہب اسلام میں نکاح کو سادگی سے کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔تاہم آج ہم نے ہی مختلف غیر شرعی رسومات کے ذریعہ نکاح کو مشکل بنادیا ہے۔گھوڑے جوڑے کی رسم پر عمل کیا جاتا ہے اورآتش بازی کے علاوہ باجے اور تاشے بجائے جاتے ہیں۔ جہیز کی لعنت اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک کہ سب اس لعنت کے خاتمہ کیلئے سنجیدگی کے ساتھ کمر بستہ نہ ہوجائیں۔ ائمہ اکرام نوجوانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑیں اور خطبات میں جہیز کے خلاف نوجوانوں میں شعور بیدار کریں۔اجتماعات اور محافل میں جہیز جیسی لعنت کے خلاف نوجوانوں کو حلف دلوایا جائے۔

جہیز سے متعلق شکایتوں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیونکہ بعض اوقات انصاف رسانی میں تاخیر کے باعث خودکشی جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔یہ کہنا ہے ایم اے مجیب سینئر ایڈوکیٹ ہائی کورٹ و صدر کل ہند بزم رحمت عالم  کا۔انہوں نے کہا کہ جہیز ایک سماجی برائی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ میں کئی انسانیت سوز واقعات پیش آرہے ہیں۔ایسے واقعات کے تدارک کیلئے حکومتیں بھی آگے آئیں اور جہیز مخالف قوانین وضع کئے گئےاس کے باوجود یہ مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔جہیز کی لعنت کے خلاف نہ صرف نوجوانوں میں شعوربیدار کیا جارہا ہے بلکہ نوجوانوں کو اسلامی تعلیمات سے واقف کروانے کیلئے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں۔بزم کے تحت لیگل سیل بھی کام کرتا ہے جو پریشان حال اور ہراسانی کا شکار خواتین کی رہنمائی کے علاوہ قانونی مدد بھی فراہم کرتا ہے۔