جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انٹرنیشنل ڈے آف دی گرل چائلڈ کا انعقاد

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 14-10-2022
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انٹرنیشنل ڈے آف دی گرل چائلڈ کا انعقاد
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انٹرنیشنل ڈے آف دی گرل چائلڈ کا انعقاد

 

 

نئی دہلی : سبجیکٹ ایسو سی ایشن آف دی سینٹر فار ارلی چائلڈ ہوڈ ڈولپمنٹ اینڈ رسرچ (سی ای سی ڈی آر)جامعہ ملیہ اسلامیہ نے مورخہ گیارہ اکتوبر دوہزار بائیس کو پوسٹر سازی اور نعرہ لکھنے کا مقابلہ منعقد کرکے انٹرنیشنل ڈے آف دی گرل چائلڈ منایا۔مقابلوں کے انعقاد کا مقصد لڑکی کو درپیش مسائل سے متعلق بیداری پیدا کرنا تھا۔

مقابلہ کا مرکزی خیال ’اور ٹائم یس ناؤ اور رائٹس،اور فیوچر‘یونیورسٹی کی مختلف فیکلٹیز اور شعبہ جات کے طلبا و طالبات نے مقابلے میں حصہ لیا۔لڑکی کوبا اختیار بنانے اور دنیا بھرمیں اس کی اجتماعی آواز کو زیادہ مضبوطی دینے کے مقصد سے ہر سال انٹرنیشنل ڈے آف گرل چائلڈ گیارہ اکتوبر کو منایا جاتاہے۔

پروگرام میں پروفیسر ارچنا داسی (پروفیسر ان چارچ) ڈاکٹر صوفیہ عظمت (طلبا مشیر)نے شرکت کی۔پروگرام میں سبجیکٹ ایسو سی ایشن آف سی ای سی ڈی آر جامعہ ملیہ اسلامیہ نے عہدیداروں نے بھی شرکت کی۔ مقابلے میں پروفیسر انوبھا راجیش اور ڈاکٹر سیما ناز نے جج کے فرائض انجام دیے تھے۔

ارم فاطمہ۔ایم اے (ایجوکیشن) ڈپارٹمنٹ آف ایجوکیشن(فاتح)بشر ی عزیز۔ایم اے (ای سی ڈی) سینٹر فار ارلی چائلڈ ہوڈ ڈولپمنٹ اینڈ رسرچ (رنراپ) نمرا خان ایم اے (ای سی ڈی) سینٹر فار ارلی چائلڈ ہوڈ ڈولپمنٹ اینڈ رسرچدوسری رنر اپ)ہاجرہ اور رابعہ حسن،سینٹر فار ارلی چائلڈ ہوڈ ڈولپمنٹ اینڈ رسرچ کو تشجیعی انعام فاتح) قرار دیا گیا۔

اقوام متحدہ چلڈرینس فنڈ (یو این آئی سی ای ایف) نے اس موقع پر پروگرام منعقد کرائے ہیں۔مساوی مواقع کی فراہمی کی سخت ضرورت کی اہمیت کو یہ اجاگرکرتاہے تاکہ لڑکیاں بھی لڑکیوں سے بہتر نہیں تو کم سے کم ان کے برابر مظاہر ہ کرسکیں۔اس دن دنیا بھر میں یونائیٹیڈ نیشن،دوسری تنظمیں،سپورٹ گروپس اور لوگ تشدد،اطفال ازدواج،عصمت دری،خراب صحت اور لڑکیوں کے لیے تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے خلاف کھڑے ہونے کا اپنا موقف تازہ کرتے ہیں۔

گزشتہ دس برسوں میں لڑکیوں کو درپیش مسائل کی جانب حکومت کے پالیسی سازوں اور عوام نے زیادہ توجہ دی ہے اور عالمی سطح پر لڑکیوں کی آواز سنی جائے اس کے لیے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔اس کے باوجود لڑکیوں کے حقوق میں سرمایہ کاری محدود ہے اور لڑکیوں کو ابھی بھی اپنے امکانات بروئے کار لانے میں سخت جدو جہد کرنا پڑتی ہے۔