جی ٹوینٹی لیکچر سیریز: جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ا مریکی ماہرین کا خطبہ

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 01-03-2023
جی ٹوینٹی لیکچر سیریز:  جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ا مریکی ماہرین کا خطبہ
جی ٹوینٹی لیکچر سیریز: جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ا مریکی ماہرین کا خطبہ

 

 

 نئی دہلی :شعبہ معاشیات،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے جی ٹوینٹی لیکچر سریز کے حصے کے طورپر ’پائے دار ترقی اہداف۔ اہداف چار اور چھے (معیاری تعلیم اور پانی) کے موضوعات پر خصوصی خطبات کا اہتمام کیا۔امریکہ کے جناب ڈیوڈ ایچ البرٹ اور ڈاکٹر ڈیوڈ بلیک نے یہ خطبات دیے۔

شعبہ معاشیات،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدرپروفیسر اشیر علیان نے اجلاس کی صدارت کی اور لیکچر کے ممتاز مقررین کے ساتھ پروگرام کے شرکا کا استقبال کیا۔ لیکچر سیریز کوآرڈی نیٹر پروفیسر باتھولا سری نواسونے مقررین کا اجمالی تعارف کرایا۔

امریکہ کے جناب ڈیوڈایچ البرٹ، ورلڈ پروجیکٹ کے فاؤنڈر فرینڈلی واٹر فارواٹر جو دنیا بھر میں گاندھیا ئی افکار و خیالات کے اطلاق کے لیے سال دوہزار اکیس کا جمنالا ل بجاج انعام سے سرفراز بھی ہوچکے ہیں انھوں نے  ترقی کی اصطلاح کو مسئلہ قرار دیتے ہوئے اور اس سے سماج اور معاشرے میں اس کے کنٹریبوشن کے نکتے سے اپنی گفتگو شروع کی۔

جناب البرٹ نے مہاراشٹرا اور دیگر ریاستوں میں کسانوں کی خودکشی ور قرض لینے والو ں کی حالت سے متعلق کئی تشویشات کو بیان کیا۔جراثیم کش دواؤں کے زیادہ استعمال سے صحت کے مسائل پیداہورہے ہیں اس سلسلے میں انھوں نے اپنی فکرمندی کا اظہار کیا۔ صاف ہوا،پانی،کھانا اور تعلیم لوگوں کی بنیادی ضروریات پرزوردیا اور انھیں ایسے حقوق قراردیا جو ہمیشہ رہیں گے۔افریقی ممالک کے کئی گاؤں کے اپنے ذاتی مشاہدات و تجربات کی روشنی میں پانی کی قلت کے خراب تناظر کی وضاحت کی۔پانی لینے کے لیے مرد وخواتین کو کئی کئی کلومیٹر جانا پرتا ہے یہاں تک کہ صبح کے وقت بھی جس سے ان کی زندگی کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ نیز انھوں نے کہاکہ آب وہوا کی تبدیلی سے خراب حالت میں اور بھی پیچیدگی بڑھ جاتی ہے۔انھوں نے اپنی تنظیم کی کامیاب کہانیاں بھی بتائیں جنھوں نے ان گاؤں کو صاف پانی،کھانا اور تعلیم جیسے انسانی حقوق کو مہیا کرانے میں بڑی حد تک مدد بہم پہنچائی ہے۔

awazurdu

فیلڈنگ گریجویٹ یونیورسٹی امریکہ کے اسکول آف لیڈرشپ اسٹڈیز کے ڈاکٹورل فیکلٹی ڈاکٹر ڈیوڈ بلیک ویلیس دوسرے مہمان مقرر تھے۔انھوں نے جاپان کے اپنے تجربے کی روشنی میں ’اے ایم اے ای‘ کے تصور اور کنسیپٹ کو پیش کررہے ہیں،انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایاکہ انحصار یا آزادی کے بجائے ایک دوسرے پر انحصار سے ہی مستقبل میں سارے شعبوں میں تبدیلیاں ممکن ہیں۔انھوں نے اس سلسلے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ آج کل لوگ جدیدکاری کے تارعنکبوت سے نوآبادیائی کیے گئے ہیں اور یہ مناسب وقت ہے کہ افکار و خیالات اور عادات کو غیر نوآبادیائی کیا جائے۔حال کے دنوں میں ممالک فوجی مصارف کے لیے خطیر رقم کی ریوینو مختص کررہے ہیں انھوں نے لوگوں اور وسائل کے لیے ترجیح کی سطح کے سوال کو پہلو بہ پہلو رکھا۔

ڈاکٹر ولییس نے تعلیم کے لیے مزید ترجیح کی ضرورت کا اعادہ کیا۔انھوں نے کہا کہ موجودہ ٹکنالوجی کے ضمن  میں ہندوستان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔مزید برآں ان کاخیال تھا کہ ہمیں اپنی ہر ضرورت کے  خیالات و افکار اور اختراعات کے لیے مغربی ممالک پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔انھوں نے شرکا سے بھی اپیل کی کہ فطرت کے تئیں اپنے دل میں احترام پیدا کریں تاکہ ڈولپمنٹ جو انسانیت کی ضروریات کی تکمیل کرسکتی ہے وہ ممکن ہوسکے۔

لیکچر کے بعد شرکا نے سوالات پوچھے اور سوالات پر مباحثہ بھی ہوا۔محترمہ انم فردوس کے اظہار تشکر کے ساتھ پروگرام اختتام پزیر ہوا۔